سفید ہاتھی

بھٹو نے کہا تھا کہ انہیں ’’سفید ہاتھی‘‘ کی جانب سے خط کے ذریعے ایک پیغام دیا گیا ہے کہ ــ"The Party is Over"

وزیر اعظم عمران خان نے جس سرپرائز کا پوری قوم کو انتظار کروایا تھا شاید وہ اسی خط کے حوالے سے قوم کو آگاہ کرنا چاہ رہے تھے۔ وزیراعظم نے صاف الفاظ میں کہاہے کہ ’’بیرونی فنڈنگ سے حکومت تبدیل کرنے کی کوشش ہورہی ہے، ہمیں پتہ ہے کہ کن کن جگہوں سے باہر سے ہم پر دبائو ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے،پاکستان کی خارجہ پالیسی کو باہرسے متاثر کرنے کی کوششیں کی جارہی ہے، ہمیں تحریری دھمکیاں دی گئی ہیں جو خط کی صورت میں میرے پاس ثبوت کے طور پر موجود ہے،بیرونی سازش کی تفصیلات وقت آنے پرقوم کو بتائوں گا،پیسہ باہر کا ہے اور لوگ ہمارے استعمال ہو رہے ہیں،ہمارے زیادہ تر لوگ انجانے میں استعمال ہو رہے ہیں، کچھ جان بوجھ کر ہمارے خلاف پیسہ استعمال کر رہے ہیں،قوم جاننا چاہتی ہے کہ لندن میں بیٹھا ہوا شخص کس کس سے ملتا ہے اور پاکستان میں بیٹھے ہوئے کردار کس کے کہنے پر چل رہے ہیں۔انہوں نے سابق وزیر اعظم بھٹو کا حوالہ دیتے ہوئے یہ بھی کہا کہ بھٹو نے جب ملک کو آزاد خارجہ پالیسی دینے کی کوشش کی تو فضل الرحمان اور بھگوڑے نواز شریف کی جماعتوں کی اس وقت کی قیادت نے بھٹو کیخلاف تحریک چلائی اور ملک میں آج جیسے حالات بنا دیئے گئے اور ان حالات کی وجہ سے بھٹو کو پھانسی دی گئی‘ گزشتہ کئی مہینوں سے ہونے والی اس سازش کا ہمیں پتہ ہے، آج یہ جو قاتل اور مقتول اکٹھے ہو گئے ہیں، ان کو اکٹھا کرنے والوں کا بھی ہمیں پتہ ہے لیکن آج وہ ذوالفقار علی بھٹو والا وقت نہیں ‘‘۔
اگر ہم پاکستان کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو سابق وزیر اعظم و صدر ذوالفقار علی بھٹو نے جب اپنے اقتدار کو ڈانوا ڈول دیکھا تو عوا م میں جانے کا فیصلہ کیا۔ بھٹو نے روالپنڈی صدر کے معروف بازار میں گرامو فون پر ایک تاریخی تقریر کی تھی جس میں ’’سفید ہاتھی ‘‘ کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ بھٹو نے کہا تھا کہ انہیں ’’سفید ہاتھی‘‘ کی جانب سے خط کے ذریعے ایک پیغام دیا گیا ہے کہ ــ”The Party is Over” ۔ اس حوالے سے 28 اپریل 1977 کو بھٹو نے قومی اسمبلی اجلاس میں بھی یہ انکشاف کیا تھا کہ میرے خلاف ’’قومی اتحاد‘‘ کی صورت میں ایک سازش تیار کی گئی ہے اور اس سازش کے تانے بانے ’’سفید ہاتھی‘‘ سے ملتے ہیں جو میرے خون کا پیاسا ہوچکا لیکن میں اس کا آخری دم تک مقابلہ کروںگا۔ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا کہ ’یہ ایک بہت بڑی عالمی سازش ہے جسے امریکہ کی مالی مدد حاصل ہے تاکہ میرے سیاسی حریفوں کے ذریعے مجھے نکال دیا جائے۔‘اس کی وجہ بتاتے ہوئے بھٹو نے کہا کہ ’ویتنام میں امریکہ کی حمایت نہ کرنے اور اسرائیل کے مقابلے میں عربوں کا ساتھ دینے پر امریکہ انھیں معاف نہیں کرے گا۔‘ایک گھنٹے اور 45 منٹ تک جاری رہنے والی اس تقریر میں انھوں نے امریکہ کو ایک ہاتھی قرار دیا جو بھولتا ہے نہ معاف کرتا ہے۔ آج 45 برس بعد وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ روز کے جلسے میں اپنی تقریر کے دوران ایک ’’خفیہ‘‘ خط لہرا کر 77 کی دہائی میں رونما ہونے والے واقعات کوتازہ کر دیا ہے۔ اگرچہ وزیر اعظم عمران خا ن نے بھٹو کی طرح مذکورہ خط کے بارے میں تفصیلات نہیں بتائیں لیکن دونوں واقعات کافی حد تک مماثلت رکھتے ہیں۔وزیر اعظم عمران خان کی تقریر سے واضح ہوتا ہے کہ امریکہ و دیگر عالمی طاقتیں ایک مرتبہ پھر پاکستان میں اقتدار ان لوگوں کو دینا چاہتے ہیں جو ان کے مطالبات پر مکمل طور پر ’’لیٹ‘‘ جائیںاور اس مقصد کیلئے حکومتیں بنانے اور گرانے والوں کی خدمات ایک بار پھر حاصل کی گئی ہیں۔
22 کروڑ عوام 27 مارچ کو ہونے والے جلسے میں وزیر اعظم کے خطاب سے امید لگائے بیٹھے تھے کہ انہیں شاید کوئی بڑا ’’سرپرائز‘‘ ملے گا۔ یہ سرپرائزبڑے ریلیف کی صورت میں بھی ہو سکتا تھا لیکن غیر متوقع طور پر بیرونی سازش کی شکل میں سامنے آیا ہے جو قوم کیلئے اچھنبے کی بات نہیںالبتہ خارجہ پالیسی بنانے والوں کیلئے فکر مندی کی بات ضرور ہے ۔مقتدر حلقوں کو دیکھنا اور سوچنا چاہئے کہ قوم خود مختار ہونا چاہتی ہے اور خود مختار قوم اقوام عالم میں اپنا نمایاں مقام بنا لیتی ہے۔ پاکستان میں جب تک حقیقی جمہوریت نہیں آتی اور ایوان میں بیٹھے لوگوں کو عوام ’’صحیح‘‘ انداز میں منتخب نہیں کرتے تب تک معاملات اسی طرح چلتے رہیں گے اور کوئی بھی وزیر اعظم اپنی آئینی مدت پوری نہیں کر سکے گا۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اندرونی محاذ پرتحریک انصاف حکومت کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کر سکی اور عوام ہنوز مہنگائی، بے روزگاری، کرپشن اور غربت جیسے مسائل میں گھری ہوئی ہے لیکن عالمی سطح پر پاکستان کے مثبت امیج میں اضافہ ہوا ہے اور پاکستان کو دنیا میں ایک اہم اسلامی مملکت کے طور پر نہ صرف تسلیم کیا جا رہا بلکہ اس سے اپنا کردار ادا کرنے کی درخواست بھی کی جا رہی ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں میں رونما ہونے والے واقعات کے بعد پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی از سر نو مرتب کرنی چاہئے تاکہ ہم اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کر سکیںاور کسی ’’سفید ہاتھی ‘‘کی سازش کا شکار نہ ہوں۔بقول راغب مراد آبادی
ہم وطن یہ گلستاں تیرا بھی ہے میرا بھی ہے
اس کا ہر سود و زیاں تیرا بھی ہے میرا بھی ہے

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button