ممتاز دانشور احمد سلیم ورثہ میں اہم تاریخی دستاویزات، معلومات کا قیمتی خزانہ نئی نسل کیلئے چھوڑاجسے محفوظ کرنے کی ضرورت ہے، جمال شاہ
اسلام آباد(پ ر)سید جمال شاہ نگران وفاقی وزیر ثقافت وقومی ورثہ نے گزشتہ روز ممتاز ترقی پسند شاعر ودانشور احمد سلیم کو شاندار الفاظ میں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ پنجابی شاعری سمیت دیگر اصناف میں احمد سلیم کاکام اور بالخصوص انسانی حقوق پر کاوشیں لائق ستائش ہیں۔احمد سلیم تاریخی دستاویزات، معلومات کا قیمتی خزانہ نئی نسل کیلئے چھوڑ کر گئے جو کہ قومی ورثہ کادرجہ رکھتا ہے۔تاکہ اس سے آئندہ آنے والی نسلیں مستفید ہو سکیں۔اس امر کا اظہار وفاقی وزیر جمال شاہ نے گزشتہ روز پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی اور اکیڈمی ادبیات پاکستان کے زیر اہےمام فیض احمد فیض ہال میں احمد سلیم کی یاد میں منعقدہ تعزیتی نشست کے دوران اظہار خیال کیا۔
اس موقع پر ایس ڈی پی آئی کی طرف سے احمد سلیم کی زندگی پر مبنی دستاویزی فلم بھی دکھائی گئی۔ وفاقی وزیر نے احمد سلیم کی جدوجہدپر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے معاشرے سے گہرا رشتہ تادم مرگ جوڑے رکھاجو کہ اس میں موجود ناہمواریوں کومحسوس کرتے رہے۔وہ ساری زندگی ان ناہمواریوںکو ختم کرکے معاشرے کو ایسے پھولوں میں تبدیل کرنا چاہتا تھا جس کی خوشبو سے سارا جگ مہکتا رہے۔جمال شاہ نے مزید کہا کہ احمد سلیم نے جس سے دھرتی سے علم حاصل کیا ،معاشرے کے مثبت و منفی پہلوؤں سے تربیت حاصل کی ا سی دھرتی سے مثبت ادب کشید کیاجو قوم کیلئے قیمتی اثاثہ سے زیادہ رہنمائی کا خزینہ ہے۔انہوں نے بتایا انہیں زمانہ طالب علمی سے ہی جبر کے خلاف آواز بلند کرنے کیلئے احمد سلیم کی رہنمائی میسر رہی ۔احمد سلیم کا دیرینہ خواب تھا کہ انکا قیمتی اثاثہ محفوظ بنا کر نئی نسل کے لئے مستفید ہونے کیلئے رکھا جائے جس پر ہمیں مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
وفاقی وزیر نے آ خر میں کہا کہ احمد سلیم ، بابا بلھے شاہ، رحمان بابا اور حبیب جالب کی طرح روشن خیال تھے جن کے کام میں کسی قسم کا تعصب و تفریق نظر نہیں آئی۔احمد سلیم کے یاد میں منعقدہ نشست سے اظہار خیال کرتے ہوئے پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی کے سر براہ ڈاکٹر عابد قیوم سلہری نے احمد سلیم کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان کے تخلیق کردہ ادب خواہ کسی بھی صنف میں ہوں کوئی امتیاز نہیں ملتا ´ ان کا کام نہ صرف پاکستان بلکہ پنجابی ، اردو ، ہندی ، فارسی ، گورمکھی ، انگریزی اور بنگالی لکھی، پڑھی اور بولی جانے والے خطوط میں بھی سراہا جاتا ہے۔ جس کے باعث انہیں حکومت پاکستان کی طرف سے ان کی خدمات کے اعزاز میں حسن کارکردگی ایوارڈ اور بنگلہ دیش حکومت کی طرف سے ان کی خدمات کے اعزاز میں اعلیٰ ترین ایوارڈ سے نوازا گیا جو کہ وارث میر مرحوم کے لئے بھی دیا گیا۔
ڈاکٹر عابد قیوم سلہری نے حاضر ین کو بتایا دنیا میں مختلف مقامات پر ایس ڈی پی آئی کو لوگ صرف احمد سلیم کے نام سے جانتے ہیں جس کے باعث پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی کا نام روشن ہے، ڈاکٹر عابد سلہری نے نگران وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مرتضیٰ سولنگی کی طرف سے احمد سلیم پر لکھی گئی نظم پڑھ کر سنائی ۔ ڈاکٹر عابد قیوم سلہری نے بتایا کہ احمد سلیم نے اپنی تحریروں میں ہمیشہ پسماندہ طبقوں کی نمائندگی کی ۔ اس موقع پر احمد سلیم کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کے راہنما سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر نے احمد سلیم کو قومی اثاثہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کے پاس پاکستان میں سب سے بڑا انفرادی آرکائیو تھا وہ ایک ایسے دانشور تھے جنہوں نے اپنا ادب اور فن پارے فراخدلی سے عوام الناس میں تقسیم کئے اور علم ، معلومات کی شمع روشن رکھنے کی جدوجہد جاری رکھی۔
نشست سے اظہار خیال کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ احمد سلیم نے ہمیشہ اپنی تحریروں اور جدو جہد کے ذریعے معاشرے کے پسے ہوئے طبقوں کی وکالت کی۔ انہوں نے ترقی پسند تحریروں کی وجہ سے آمرانہ ادوار میں قید و بند اور کوڑوں جیسی سزائیں قبول کیں مگر اپنے فکری نظریات پر سمجھوتہ کبھی نہ کیا۔ سینیٹر تاج حیدر نے احمد سلیم کا عظیم ورثے انفرادی آرکائیو کے حوالے سے تجویز پیش کی کہ آرکائیو کو سندھ حکومت میں ادارے کے طور پر قائم کردیا جائے یا پھر وفاقی حکومت اس آرکائیو کو محفوظ کرنے کے لئے فوری اور عملی اقدام کرے تاکہ آنے والی نسلوں کے لئے مشعل راہ ہو سکے۔
اس موقع پر ویڈیو لنک کے ذریعے لاہو رقلندر کے سر براہ رانا فواد نے احمد سلیم اور اپنی ان سے ذاتی دوستی اور لاہور سے وابستہ واقعات پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ احمد سلیم سے ان کا تعلق اس وقت سے ہے جب دونوں کے پاس محدود مالی وسائل تھے جو کہ احمد سلیم کتب کی خریداری پر صرف کر دیتے اور لاہور کے ہر کتب فروش میں ایک ہمدرد کی حیثیت سے جانے جاتے تھے۔ رانا فواد نے بتایا کہ احمد سلیم کا کتب سے عشق کی حد یہ تھی کہ گھر کا کوئی کونہ یہاں تک کہ غسل خانوں میں بھی کتب رکھی ہوئی ہوتیں۔ رانا جواد نے بتایا کہ احمد سلیم کے ساتھ مل کر مزدوروں کے لئے تھیٹر منعقد کرتے رہے جہاں ان کے حقوق کی جدو جہدکو نمایا کیا جاتا رہا ۔
اس موقع پر انسانی حقوق کمشن کے سر براہ حارث خلیق نے احمد سلیم کی جد وجہد پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا دنیا میں علم کا ماخذ سر مایہ دارانہ نظام سے جوڑا ہواہے جہاں سماجی علوم کو اس سے الگ کر کے انسان دوست بنانے کی ضرورت ہے احمد سلیم نے اپنی تخلیق ہمیشہ سماجی اور انسانیت سے مزیں رکھی اس علمی تخلیقی نظریہ کو تقویت دینے کی ضرورت ہے ۔ احمد سلیم کی یاد میں منعقدہ نشست سے ویڈیو لنک کے ذریعے برطانیہ سے ممتاز کالم نگار ، مصنف بیرسٹر نسیم احمد باجوہ نے بتایا کہ احمد سلیم سے ان کی رفاقت پانچ دہائیوں پر محیط ہے ان کی زندگی سے تحقیق ، جستجو اور جدو جہد نکال دیں تو باقی صرف وہ بچا جو لاہور کی مٹی کو لوٹا دیا ۔ اس موقع پر ویڈیو لنک برطانیہ سے ممتاز دانشور نزہت عباس نے احمد سلیم کے حوالے سے کہا کہ انہوں نے ہمیشہ دیگر طبقات کی طرح خواتین کے حقوق پر کافی مواد تخلیق کیا ۔
برطانیہ سے ڈاکٹر پریتم سنگھ نے کہا احمد سلیم کا بہترین مسکن لائبریری رہا ۔ ان سے پہلی ملاقات آکسفورڈ یونیورسٹی میں ہوئی جو کہ زندگی کا خاصہ ہے۔ویڈیو لنک کے ذریعے بھارت چندی گڑھ سے سماجی راہنما نورشرن سنگھ نے بتایا کہ احمد سلیم نے اپنی پنجابی شاعری کے ذریعے خواتین کے حقوق ، مساوت کی علمبرداری کی ۔ وہ حقیقی طورپر پسماندہ معاشرے کے حقوق کے محافظ تھے ۔ اس موقع پر پروفیسر ڈاکٹر حمیرا اشفاق نے احمد سلیم کی زندگی کے مختلف جہتوں پر تفصیلی اظہار خیال کرتے ہوئے زبر دست خراج تحسین پیش کیا اس موقع پر زرینہ سلامت ، بریگیڈئیر محمد یاسین ، کلثوم زینب ، ڈاکٹر انوار احمد اور اختر عثمان سمیت ادب و ثقافت کے دنیا بھر سے نمائندہ افراد نے براہ راست اور ویڈو لنک کے ذریعے احمد سلیم کو خراج تحسین پیش کیا۔ آخر میں پاکستان اکادمی ادبیات کے منتظم اعلیٰ سلطان محمد ناصر نے یاد گار نشست کے شرکاءکا شکریہ ادا کیا۔