جدید ٹیکنالوجی اپنانے سے معاشی اعشاریوں میں بہتری اور جی ڈی پی میں نمایاں اضافہ ہوگا، ثاقب احمد

اسلام آباد(نمائندہ خصوصی) پاکستان جدید ٹیکنالوجی کو اپنا کر اپنی اقتصادی شرح نمو (جی ڈی پی) اور معاشی اعشاریوں کو بہتر بنا سکتا ہے۔ یہ بات ایس اے پی (SAP) پاکستان، عراق اور افغانستان کے منیجنگ ڈایریکٹر ثاقب احمد نے اسلام آباد میں میڈیا نمائندوں کو بریفنگ دیتے ہوئے کہی۔ ثاقب احمد نے مقامی اور عالمی سطح پر پائداری کو حاصل کرنے اور پاکستان کی پیداواری صلاحیت میں اضافے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے سرکاری اور نجی شعبے کو ٹیکنالوجی کو اپنانا ہو گا۔ جس سے نہ صرف ملکی جی ڈی پی میں اضافہ ہو سکتا ہے بلکہ پاکستان کی پیداواری صلاحیت اور اقتصادی اعشاریوں کو بھی بڑھایا جا سکتا ہے۔
ثاقب احمد کا کہنا تھا کہ ڈیٹا سے معلومات اور تجزیات حاصل کر کے ایس اے پی حکومتی اداروں اور کمپنیوں کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ اپنے وسائل کے استعمال، سپلائی چین اور مجموعی کاروباری معاملات کو چلانے کے حوالے سے بہترین فیصلے کر سکیں ۔ جس سے مختلف شعبہ جات میں بہتری لانے اور پائیدار حکمت عملی کے نفاذ کی بھی مدد ملتی ہے۔ ثاقب احمد کا کہنا تھا کہ ایس اے پی سلوشنز توانائی کی کھپت، زیادتی اور اخراج کو ٹریک کرنے میں بھی مدد فراہم کرتا ہے جو کہ ما حولیاتی مضر اثرات میں کمی لانے میں سہولت فراہم کرتا ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ ایس اے پی سلوشنز اداروں کو وسائل کے بہترین استعما ل سے پائیدار مقاصد حاصل کرنے تک میں معاونت فراہم کرتا ہے۔
ثاقب احمد کا کہنا تھا کہ حکومت پاکستان کے کئی ادارے بشمول وزارت خزانہ، اکاونٹنٹ جنرل آف پاکستان (اے جی پی آر) وزارت ریلویز، بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں، ہائیر ایجوکیشن کمیشن، تیل و گیس تلاش کرنے والی کمپنیاں ایس اے پی کی ٹٰکنالوجی اور سافٹ وئیرز اسعتمال کرکے اپنے استعداد کار کو بڑھا رہی ہیں اور عوام کو بہتر خدمات فراہم کر رہے ہیں۔ ثاقب احمد نے بتایا کہ وزارت خزانہ کا بجٹ اور اے جی پی آر کی ساری پینشنز ایس اے پی کے سافٹ وئیر پر تیار ہوتی ہیں۔ ہمارا مشن واضح ہے کہ ہم جدت کو اپنانے میں ایک مثال بن کر ابھریں۔انھوں نے کہا کہ ایس اے پی پختہ یقین رکھتا ہے کہ کہ پائیداری ایک آپشن نہیں بلکہ ایک بنیادی ذمہ داری ہے، اسی بات کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم نے پائیداری کی طرف خود کو گامزن کیا ہے اور جدید حکمت عملی اورجدید ٹیکنالوجی کو اپنایا۔ اس عزم کہ ساتھ کہ ہم ماحول اور خود سے جڑےافراد اور معاشرے پر مثبت طریقے سے اثر انداز ہوں۔
انھوں نے کہا کہ ایس اے پی کا بنیادی مقصدکاروبار کیلئے پائیدار تبدیلی میں معاونت فراہم کرنا ہے، ایس اے پی جدید ٹیکنالوجی ،ڈیٹا پر مبنی معلومات، اور باہمی تعاون کی مدد سے کمپنیوں کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ کہ وہ اپنی بنیادی کاروباری حکمت عملیوں کو پائیدار بناسکیں۔انھوں نے بتایا کہ شراکت داری اور بہتر اقدامات کی مدد سے ایس اے پی ایسا نیٹ ورک بنانے میں کامیاب ہوتا ہو جو صنعتوں کو بہتر طریقے سے چلانے میں معاونت فراہم کرتا ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ ایس اے پی میں ہم منافع کے اہداف مقرر نہیں کرتے ، ہمارا ہدف پائیداری کا حصول ہوتا ہے۔ایس اے پی کا بنیادی کاروباری مقصد کاربن فٹ پرنٹ کو صفر پر لانا ہے۔انھوں نے بتایا کہ اس وقت دنیا بھر کے 62 فیصد ممالک بجٹ اور ٹیکس سے جڑے معاملات سے لے کر سرکاری سطح پر اس اے پی سلوشنز کا استعمال کر رہے ہیں انھیں ممالک پر بلنگ ،اشیاء ک خریدو فروخت اور پیشن سے جڑے معاملات کیلئے بھی ایس اے پی سلوشنز کا استعمال کیا جا رہا ہے۔
ایس اے پی کے ڈائریکٹر لارج انٹرپرائزز فہد زاہد نے اپنی گفتگو میں ایس اے پی کی مقامی سطح پر کاروبار کے فروغ کی کاوش کے بارے میں آگاہ کیا۔ان کا کہنا تھا کہ پائیداری کا حصول صرف ماحول دوست اقدامات سے ممکن نہیں ، اس کا حصول کاروبار کے حوالے سے اقتصادی خوشحالی،ماحولیاتی ذمہ داری اور سماجی ذمہ داریوں پر مبنی ایک طویل مدتی پالیسی بنانے سے ممکن ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے کاروباری منظرنامے میں پائیداری کو اپنانا محض ایک انتخاب نہیں بلکہ پائیدار کامیابی کے ساتھ ساتھ معاشرےاور ماحول کیلئے ایک مثبت حکمت عملی اپنانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
ایس اے پی کے سرکاری اداروں کے ڈائریکٹر ہارون خان کا کہنا تھا کہ ایس اے پی ملکی معیشت کی ترقی میں اہم کردار ادار کرتا ہے ۔انھوں نے کہا کہ سرکاری اداروں کا مقصد ہوتا ہے کہ وہ صارفین کو بہترین سہولتیں فراہم کریں جو کہ ایس اے پی کا بھی بنیادی وژن ہے ۔انھوں نے بتایا کہ پاکستان کے حکومتی ادارے تبدیلی کو اپنانے کیلئے لچک دکھاتے ہیں جس کی وجہ ایس اے پی کا ان اداروں کے ساتھ کام کرنے کا اچھا تجربہ رہا ہے اور ہم پر نئی منزلوں تک پہنچنے اور پاکستان کو ڈیجیٹل طور پر مضبوط بنانے کیلئے پر عزم ہیں۔ثاقب احمد کا کہنا تھا کہ پائیداری کے حوالے سے ایس اے پی کا نظریہ ہے کہ دنیا کے تمام ممالک کے مابین ایک مثبت معاشی،سماجی اور ماحولیاتی ماحول وجود میں آئے جس میں دنیا کے ماحول کو بہتر بنانے ،ماحول دوست معیشت کے قیام ا ور سماجی ذمہ داریوں پر خصوصی توجہ دی جائے ۔

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button