غیر صحت مند غذا کے بڑھتے رحجان کو کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے:ڈاکٹر شہزاد
صحت مند غذا کی قومی پالیسی سے بچوں کی بیماریوں کے پھیلائوپر قابو پانے میں مدد ملے گی، قاسم شاہ
پالیسی کے حصول کے لئے نوجوانوں اور خواتین کی قیادت میں مشاورت ضروری ہے: فیض رسول کا سیمینار سے خطاب
اسلام آباد:صحت مند غذا کی قومی پالیسی کے موضوع پر سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ نوجوانوں اور خواتین سمیت تمام سٹیک ہولڈرز کے ساتھ جامع مشاور ت کرے تاکہ بچوں کی بڑھتی ہوئی بیماریوں کی روک تھام کے لئے مضبوط پالیسی دستاویز کو یقینی بنایا جاسکے۔ اس سیمینار کا انعقادپالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی(ایس ڈی پی آئی) اور گلوبل الائنس فار ایڈوانسڈ نیوٹریشن (جی اے این) نے کیا تھا۔ سیمینار کا موضوع ”تصور سے عمل تک: صحت مند غذا کی پالیسی کے ذریعے خوراک کے راستے“ تھا۔ ایس ڈی پی آئی کی ریسرچ ایسوسی ایٹ خنساءنعیم نے ٹائٹل تھیم پر پریزنٹیشن دیتے ہوئے کہا ملک میں 5 سال سے کم عمر کے 37.6 فیصد بچے نشوونما سے محروم ہیں جبکہ 5 سال سے کم عمر کے 7.1 فیصد بچے ضائع ہو چکے ہیں جبکہ 7.5 فیصد خواتین اور مردوں میں موٹاپا ریکارڈ کیا گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ غذا صحت کا ایک اہم جزو ہے جس پر عوام اورسٹیک ہولڈرز کی کم توجہ ہے۔
وائس چانسلر اور ڈین ہیلتھ سروسز اکیڈمی ڈاکٹر شہزاد علی خان نے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان میں غیر صحت مند غذا کا رحجان بڑھ رہاہے جبکہ غریب آبادی کو غیر صحت بخش غذا چھوڑنے پر قائل کرنے کے لئے کوئی قابل اعتماد ماڈل موجود نہیں ۔ انہوں نے مزید کہا کہ کھانے پینے کی بری عادات اور طرز زندگی نے ملک بھر میں ناقص اور غیر صحت مند غذا کو فروغ دیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ماں کا دودھ نہ پلانے والے بچوں میں ڈائریا کا خطرہ 11 فیصد زیادہ ہوتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ ایک سروے کے مطابق 72 فیصد خواتین ڈاکٹروں کے تجویز پر اپنے بچوں کو فارمولا دودھ پلا رہی ہیں حالانکہ قانون کے مطابق فارمولا دودھ کی تشہیر اور فروخت پر پابندی ہے ۔انہوںنے کہا کہ ایس ڈی پی آئی کو بچوں کو ماں کا دودھ پلانے سے متعلق پالیسی میں قائدانہ کردار ادا کرنا چاہئے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایک فرد کی 72 فیصد صحت کا تعین غذا کی غذائیت سے ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اس وقت متعدی اور غیر متعدی بیماریوں (این سی ڈی) کے دوہرے بوجھ کا سامنا کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ غیر صحت بخش غذا کا مسئلہ کم آمدنی والے گروپوں کے ساتھ ساتھ اعلی آمدنی والے گروپوں میں بھی بہت زیادہ پایا جاتا ہے۔انہوں نے اس بڑھتے ہوئے رحجان کو کنٹرول کرنے کی ضرورت پر زور دیا ۔وزارت نیشنل ہیلتھ، سروسز، ریگولیشنز اینڈ کوآرڈینیشن کی ڈائریکٹر نیوٹریشن ڈاکٹر مہرین مجتبیٰ نے کہا کہ ہماری 67 فیصد آبادی کو صحت مند غذا تک رسائی حاصل نہیں ہے جبکہ نیشنل نیوٹریشن سروے کے اعداد و شمار پرانے ہیں اور مختلف فورمز پر بار بار حوالہ دیا گیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ وزارت صحت شراکت داروں کے ساتھ مل کر صوبوں سے جامع فیڈ بیک کے ذریعے صحت مند غذا کے بارے میں پالیسی سازی کے عمل کی حمایت کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔گین سے تعلق رکھنے والے فیض رسول نے کہا کہ پاکستان غذائی قلت کے سنگین مسائل کا سامنا کرنے والا ملک ہے لیکن ہمارے پالیسی منظرنامے کے تجزیے سے زمینی سطح پر ایسی کوئی رہنما دستاویز سامنے نہیں آئی۔ فیض رسول نے کہا کہ ہمارے ملک کی 64 فیصد آبادی نوجوان ہے لیکن پالیسی کے شعبوں میں ان کا کوئی کردار نہیں ہے۔
انہوں نے مذید کہا کہ اقوام متحدہ کے فوڈز سسٹم سمٹ میں نہ صرف پاکستان بلکہ تمام رکن ممالک پر زور دیا گیا ہے کہ وہ صحت کے مسائل اور بیماریوں سے نمٹنے کے لیے خوراک پر توجہ دیں۔ڈپٹی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ایس ڈی پی آئی قاسم علی شاہ نے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ برسوں کے دوران غذائی تحفظ اور غذائیت پر جتنا کام ہوا ہے اس سے ہمیں قومی صحت مند غذا کی قومی پالیسی تیار کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔