توانائی پالیسی کے ڈھانچے میں اصلاحات سے توانائی تک رسائی کو بہتر بنایا جاسکتا ہے: ماہرین
گردشی قرضے غیر ملکی سرمایہ کاری میں سب سے بڑی رکاوٹ ، قابل تجدید توانائی کی منتقلی پالیسی میں عدم توازن ہے: ایس ڈی پی آئی پالیسی ڈائیلاگ سے خطاب
اسلام آباد(نمائندہ خصوصی) چین میں پاکستان کی سابق سفیر نغمانہ ہاشمی نے کہا ہے کہ توانائی تک منصفانہ رسائی کو یقینی بنانے اور غربت کے خاتمے کیلئے ماہرین کی قیادت میں طویل مدتی اسٹریٹجک انرجی پلان اور مانیٹرنگ میکانزم تیار کرنا انتہائی ضروری ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی اور پاکستان چائنا انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام ”پاور سیکٹر میں تبدیلی: چین پاکستان انرجی ٹرانزیشن پارٹنرشپ کے امکانات کی تلاش“ کے موضوع پر پالیسی ڈائیلاگ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ اقتصادی اور توانائی پالیسی کے ڈھانچے میں اصلاحات کے ذریعے صنعت اور دیہی معیشتوں کے لئے توانائی تک رسائی کو بہتر بنایا جاسکتا ہے اور برآمدات اور معاشی ترقی کو فروغ دیا جاسکتا ہے۔پاکستان میں چین کے سفارت خانے کے سیاسی اور پریس سیکشن کے سربراہ وانگ شینگ جی نے کہا کہ روس اور یوکرین تنازع سے توانائی کی افراط زر کی وجہ سے توانائی کی پالیسیوں میں عالمی تبدیلی کا آغاز ہوا۔ انہوں نے کہاکہ موجودہ حالات میں پاکستان کو توانائی کی منتقلی کو ایڈجسٹ کرنے، سپلائی سائیڈ اصلاحات متعارف کرانے اور پائیدار توانائی کی فراہمی سمیت بجلی کی پیداوار کو متنوع بنانے کے لئے معتدل اور لچکدار توانائی پالیسیوں کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ گردشی قرضے غیر ملکی سرمایہ کاری میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ایس ڈی پی آئی کے سینئر ایڈوائزر اور ریسرچ فیلو ڈاکٹر حسن داو¿د بٹ نے حکومت پر زور دیا کہ وہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے لئے ایک حقیقی اور پائیدار کاروباری ماحول پیدا کرنے کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرے۔فوڈان یونیورسٹی کے گرین فنانس اینڈ ڈیولپمنٹ سینٹر کے ڈائریکٹر ڈاکٹر کرسٹوفر نیڈوفل نے کہا کہ پاکستان چین کی انرجی فنانسنگ حاصل کرنے والے سرفہرست 5 ممالک میں شامل ہے جس نے سی پیک کے تحت کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کی پیداوار کو 2015 میں 0.15 گیگاواٹ سے بڑھا کر 2023 میں 7.2 گیگاواٹ کر دیا ہے۔ تاہم صاف توانائی کی سستی لاگت کے باوجود پاکستان میں قابل تجدید توانائی کی منتقلی پالیسی میں عدم توازن اور مقامی سیاسی معیشت کی وجہ سے رکاوٹ ہے۔پی سی آئی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر مصطفی حیدر سیداورمونی ہولڈنگز کے چیف ایگزیکٹو آفیسر معین عباس نے کہا کہ توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری میں کمی اور پیداواری کمپنیوں کی ادائیگیوں میں مسائل پاک چین تعلقات کو خراب کر رہے ہیں۔انہوں نے زور دیا کہ مستقبل قریب میں پیداواری لاگت میں کمی کیلئے تھرمل توانائی سے قابل تجدید توانائی کی طرف منتقلی کو مسلسل بڑھایا جانا چاہئے ۔ایس ڈی پی آئی کے ریسرچ فیلو ڈاکٹر خالد ولید نے کہا کہ پاکستان کو صاف توانائی کی منتقلی کے لیے 2030 تک 50 ارب ڈالر اور 2040 تک 80 ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔ انہوں نے تعلیمی اداروں اور نجی شعبے کے ساتھ بین الوزارتی تعاون کو مضبوط بنانے اور توانائی کے توسیعی منصوبے کو مربوط اور اشارے دینے والا منصوبہ تجویز کیا اور میکرو اکنامک پالیسیوں اور قومی اکاو¿نٹنگ میں موسمیاتی تبدیلی اور پائیدار توانائی کو مربوط کرنے پر بھی زور دیا۔سینئر ریسرچ ایسوسی ایٹ اور ایس ڈی پی آئی کے انرجی یونٹ کے سربراہ عبید الرحمن ضیاءنے کہا کہ 12 ارب ڈالر کی چینی سرمایہ کاری بھی تھرمل اثاثوں میں پھنسی ہوئی ہے لہٰذا، دونوں ممالک کے ماحول دوست ترقیاتی وعدوں کے مطابق پائیدار توانائی کی طرف منتقلی کا ایک مضبوط معاشی معاملہ موجود ہے کیونکہ حالیہ برسوں میں 6600 میگاواٹ کوئلے کے بیڑے کی تیزی سے توسیع کی وجہ سے بجلی کے شعبے کا ماحولیاتی پورٹ فولیو خراب ہوا ہے۔