پاکستان کو ایک فلاحی ریاست اور سیکورٹی ریاست ہونے کے بیچ توازن قائم کرنے کی ضرورت ہے: ماہرین

اسلام آباد: ایک مضبوط ،پیشہ ورانہ فوج کی ضرورت، اور سیاست میں فوجی اثر و رسوخ کے درمیان موجود مخمصے کا واحد حل سول- ملٹری مکالمہ ہے۔ اس مقصد کے لیے بہترین فورم قومی سلامتی کمیٹی (این ایس سی) ہے، جسے باقاعدہ بات چیت اور مشاورت کے لیے ایک پلیٹ فارم کے طور پر مؤثر طریقے سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ مزید برآں، فوجی اور سول اسٹیک ہولڈرز دونوں کو طاقت اور اقتدار کی حرکیات سے ہٹ کر آئین کے ساتھ مطابقت پیدا کرنے اور لوگوں کی فلاح و بہبود پر اپنی توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔
مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان ایک ریاست کی حیثیت سے آج تک خود کو ایک فلاحی ریاست یا سیکیورٹی اسٹیٹ کیے درمیان پاتا ہے۔ دونوں حیثیتوں کے درمیان توازن قائم کرنا ایک مضبوط جمہوری فریم ورک کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے جس میں فوج کا کردار سویلین حکمرانی کے ماتحت ہو۔ اس دلچسپ اور اہم مکالمے کا مشاہدہ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئ پی ایس) اور فاطمہ جناح ویمن یونیورسٹی، راولپنڈی کے شعبہ قانون کے زیر اہتمام ‘پاکستان کا آئین: اگلے 50 سالوں کے لیے اسباق’ کے عنوان سے منعقد ہونے والی دو روزہ کانفرنس کے ایک حصے ‘جمہوری پاکستان میں سول ملٹری ریلیشنز’ کے دوران کیا گیا۔ کانفرنس سے تجربہ کار سیاستدانوں، قانونی اور آئینی ماہرین نے خطاب کیا۔ سابق وفاقی وزیر برائے قومی سلامتی لیفٹیننٹ جنرل (ر) نعیم خالد لودھی کی زیرصدارت سیشن سے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپرنسی (پلڈاٹ) کے صدر احمد بلال محبوب نے کلیدی مقرر کے طور پر خطاب کیا، جبکہ مختلف قومی اور بین الاقوامی یونیورسٹیوں کے محققین نے اس میں شرکت کی اور موضوع سے متعلق اپنے مقالے پیش کیے۔
احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ "سول ملٹری تعلقات پاکستان کے مستقبل کے جمہوری فریم ورک کا سب سے اہم پہلو ہیں۔” انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ "روایتی سول ملٹری تعلقات پائیدار نہیں ہیں” کیونکہ "معیشت، سیاست اور معاشرے میں موجود مسائل کو گورننس کے نام نہاد ہائبرڈ ماڈل سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔” انہوں نے مزید کہا کہ ملک کے لیے خود کو موجودہ چیلنجز کے مطابق ڈھالنا اور سول ملٹری تعلقات کے لیے ایک نیا، زیادہ متحرک انداز اپنانا بہت ضروری ہے۔


انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ آگے بڑھنے کا واحد راستہ صحت مند اور تعمیری سول ملٹری ڈائیلاگ ہے، جس کے لیے ایک فعال قومی سلامتی کمیٹی ایک بہترین فورم فراہم کرسکتی ہے ، باہمی افہام و تفہیم کو فروغ دے سکتی ہے، اور مستقبل میں پاکستان کی سول ملٹری تعلقات کے لیے ایک راستہ طے کرنے میں مدد کر سکتی ہے۔. لیفٹیننٹ جنرل (ر) نعیم خالد لودھی نے کہا کہ سول ملٹری تعلقات کے بارے میں ہونے والی بحث فوج اور سویلین قوتوں کے درمیان طاقت کی حرکیات کے کردار پر بہت زیادہ مرکوز ہے، جبکہ سول ملٹری تعلقات کے حصے کے طور پر سِول سے سِول تعلقات میں مسائل کو اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ انہوں نے سول ملٹری تعلقات کے مکالمے کے دائرہ کار کو وسیع کر کے اس میں سول-
سول تعلقات کو شامل کرنے کی ضرورت پر زور دیا، جو کہ انتظامیہ-عدلیہ اور وفاق-صوبوں-مقامی حکومتوںکی مابین اختیارات اور وسائل کی جنگ کے پیش نظر موئثر طرز حکمرانی کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ مزید برآں، انہوں نے سیاست دانوں کا حوالہ دیا جو اقتدار کے حصول کے لیے فوج کا کاندھا استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے سویلین اداروں اور کرداروں کی کارکردگی کا جائزہ لینے کی اہمیت پر زور دیا، کیونکہ سول اداروں میں تعاون اور پیشہ ورانہ مہارت کی سطح بھی جمہوری ترقی کے لیے اتنی ہی اہم ہے۔


اس تاثر کے بارے میں کہ فوج ملک کے قومی مفاد کا تعین کرتی ہے، لودھی نے کہا کہ یہ ریاستوں کے درمیان اتفاق رائے ہے کہ قومی مفاد عوام کی فلاح و بہبود ہے۔ اس لیےجب تک کہ یہ مقصد پورا ہوتا رہے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کون اس کی تعریف بیان کرتا ہے۔ اس حساب سے فوج ریاست کی ‘طاقت’ ہے اور شہری اس کا ‘دماغ’ ہیں، لہٰذا، دونوں کو قومی ترقی کے لیے مل کر کام کرنا چاہیے۔ اس معاملے میں”عوام کی فلاح اور بہبود دونوں کا مشترکہ مقصد ہونا چاہیے”، تاہم ان کا کہنا تھا کہ سیاست دانوں کو ریاستی امور ادا کرنے کے لیےاپنی صلاحیتوں کو بہتربھی کرنا چاہیے۔

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button