پولیس والے کی زندگی۔۔۔ تحریر: ارسلان سعید اعوان
پولیس والے کی زندگی کے حالات کو بیان کرنا تو مشکل ہے لیکن اظہار کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔میرا ماننا ہے کہ خاص پولیس کانسٹیبل سے لے کر انسپکٹر تک ہے۔بہت عرصہ قبل جب پولیس والوں سے اتنی واقفیت اور انکے ساتھ وقت نہیں گزرا ہوا تھا تو سوچ مختلف تھی۔ایک دن اچانک کسی دوست کا مسئلہ بنا اور دو دن لگاتار پولیس اسٹیشن آنا جانا ہوا تو ایک پولیس والے کی زندگی کو تھوڑا سا سمجھنے کا موقع ملا اور پھر آہستہ آہستہ زیادہ موقع ملا۔
جب ایک پولیس والا اے ایس آئی ،سب انسپکٹر ،انسپکٹر صبح اٹھتا ہے تو عدالت کی تیاری شروع کر کہ عدالت پہنچ گیا وہاں سارا دن گزارنے اور جج صاحب کی ڈانٹ ڈپٹ برادشت کرنے کے بعد وہ پولیس اسٹیشن پہنچتا ہے تو تفتیش کرنی ہوتی ہے تفتیش ختم کرتا ہے پھر ضمنیاں لکھنا شروع ہوگیا،ضمنیاں ختم ہوئیں تو پھر گشت کا شیڈول شروع ہو جاتا ہے ۔پھر رات کا زیادہ تر حصہ گشت میں گزرا پھر ان سارے معاملات میں کچھ پتہ نہیں کسی وقت بھی 15 کی کال آجائے تو جب ایک انسان ذہنی اور جسمانی طور پر فٹ ہی نہیں وہ سارے معاملات کیسے اچھے طریقے سے ہینڈل کر سکتا ہے ۔
اگر ذہنی دباؤ کے باعث اگر کسی سے کوئی سخت یا ناراضگی والی بات کر جائے تو لوگ سیدھا افسران بالا تک پہنچ کر شکایت سنا کر واپس آجاتے ہیں اور اسکے بعد زیادہ تر افسران اہلکاروں کی پیشیاں لگا دیتے ہیں کچھ احساس کرنے والے افسران بھی ہوتے ہیں لیکن زیادہ احساس نہ کرنے والا رویہ دیکھا گیا ہے ۔پھر وسائل کی کمی بھی ہے اب ایک پولیس افسر کو موبائل چوری یا کوئی بھی ٹیکنیکل درخواست موصول ہوتی ہے تو جب تک اسکے پاس ٹیکنیکل وسائل موجود ہی نہیں ہوں گے تو وہ کیسے ان مسائل اور درخواستوں کو حل کرے گا لیکن عوام کے منہ میں ایک ہی بات ہوگی چوری کی درخواست دی ہے لیکن پولیس اس ہر کام ہی نہیں کر رہی انکو کیا پتہ کہ پولیس کے پاس وسائل ہی نہیں ۔
پولیس اہلکار عوامی دباؤ ،اعلی افسران کا دباؤ اور جج صاحبان کے پریشر میں کام کر رہے ہوتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ پولیس والوں کو زیادہ تر ذہنی دباؤ اور ڈیپریشن کی وجہ سے ہارٹ اٹیک بھی زیادہ دیکھنے میں آیا ہے ۔خدارا یہ بھی ہمارے بھائی ہیں اور ہم میں سے ہیں اسی معاشرے کا حصہ ہیں۔ان کا خیال کیا کریں اور ان سے خوش اخلاقی سے پیش آیا کریں۔