نواز شریف کی واپسی

گزشتہ روز نوازشریف کی درخواست ضمانت اسلام آباد ہائیکورٹ میں دن 1:30 پر دائر ہوئی۔ 15 منٹ بعد ہی اس پر نمبر لگ گیا اور 25 منٹ میں بینچ بن گیا۔ 30 منٹ بعد سماعت شروع۔ نیب پراسیکیوٹر بن بلائے عدالت پہنچ گئے

سماعت کے دوران نیب پراسیکیوٹر بغیر نوٹس کمرہ عدالت میں موجود بھی تھے عدالت کے پوچھنے پر روسٹرم پر آئے کہا نیب کی جانب سے مجھے باقاعدہ ہدایات ہیں ہمیں کوئی اعتراض نہیں ۔۔ بغیر نوٹس ہدایات کا بھی کہنے پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کچھ حیران ہوئے ریمارکس دئیے ” آپ کو حفاظتی ضمانت دینے پر کوئی اعتراض نہیں کل کو آپ کہیں گے کہ فیصلہ ہی کالعدم قرار دے دیں پھر آپ چیئرمین نیب سے پوچھ لیں کہ آج ہی اپیل بھی decide کر دیتے ہیں، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب

تحریک انصاف کے وکلاء نے اعتراض اٹھایا کہ دونوں درخواستوں پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے رجسٹرار آفس نے کوئی اعتراض عائد نہیں کیا ؟ جب عمران خان صاحب کی ضمانتوں کی درخواستیں بطور اٹارنی میرے ذریعے دائر ہوئی تھی تو اسلام آباد ہائی کورٹ رجسٹرار آفس نے فورا اعتراض لگایا تھا کہ فوجداری کیسسز ضمانت وغیرہ میں اٹارنی کے ذریعے درخواست دائر نہیں ہو سکتی.اور عمران خان خود بائیو میڑک کے لیے اس کمرہ میں ویل چیئر پر بھی ہر دفعہ بائیو میٹرک کے لیے جاتے رہے . آج پھر نواز شریف کے لیے الگ قانون ہے ؟ رجسٹرار آفس نے نمبر بھی الاٹ کردیا گیا.
مزید برآں یہ کہ فوجداری قانون میں سزا یافتہ مفرور مجرم کو حفاظتی ضمانت دینے کی کوئی شق موجود نہیں۔
مفرور مجرم پہلے گرفتاری دے پھر سزا کی معطلی کی درخواست متعلقہ عدالت میں دائر کرے۔

سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف دبئی سے خصوصی پرواز کے ذریعے 21 اکتوبر کو پاکستان پہنچیں گے تاہم ان کے پاکستان واپسی پر کیے جانے والے استقبال سے زیادہ اہم چیز ان کو درپیش قانونی چیلنجز تھے۔ جو کہ اب نہیں رہے
آج اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے حفاظتی ضمانت منظور ہونے کے بعد قانونی ماہرین میں ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے۔
آج کے فیصلے سے پہلے ایک سوال لوگوں کے ذہنوں میں آٹھ رہا تھا کہ میاں صاحب
پاکستان پہنچیں گے تو کیا وہ لوگوں سے خطاب کرنے کے لیے مینار پاکستان جائیں گے یا پھر انھیں دوبارہ کوٹ لکھپت جیل جانا پڑے گا؟

نواز شریف جب سنہ 2019 میں علاج کی غرض سے بیرون ملک گئے تھے تو اس وقت وہ سزا یافتہ تھے اور اسلام آباد کی احتساب عدالت کی طرف سے العزیزیہ سٹیل ملز کے مقدمے میں بطور قیدی سات سال کی سزا کاٹ رہے تھے۔

مسلسل عدم پیشی کی بنا پر عدالت انھیں اشتہاری بھی قرار دے چکی تھی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے دسمبر 2020 میں عدم پیروی کی بنا پر نواز شریف کی ایون فیلڈ میں ضمانت اور العزیزیہ سٹیل ملز میں سزا کی معطلی کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے انھیں اشتہاری قرار دیا تھا۔

قانونی ماہرین میں نواز شریف کی حفاظتی ضمانت ملنے والے فیصلے پر اختلاف رائے پایا جاتا ہے کچھ کا کہنا ہیکہ حفاظتی ضمانت کے دوران نواز شریف ان عدالتی فیصلوں کی معطلی کے لیے درخواستیں دائر کر سکتے ہیں۔

ان کا مئوقف ہیکہ اگر عدالت حفاظتی ضمانت کی مدت کے دوران ان کی درخواستوں پر کوئی فیصلہ نہیں کرتی تو پھر سابق وزیر اعظم کو اس وقت تک جیل جانا پڑے گا جب تک ان کی درخواستوں پر کوئی فیصلہ نہیں آ جاتا۔

تاہم کچھ قانونی ماہرین اس سے اختلاف رکھتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ اشتہاری ہونے کے باعث نواز شریف کو جیل جائے بغیر کوئی ریلیف نہیں مل سکتا کیونکہ جب کوئی بھی ملزم عدالت کے سامنے سرینڈر کرے تو عدالت اسے قانون کا سامنا کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے اور عدم موجودگی میں عدالتیں ایسے ملزم یا مجرم کو ریلیف فراہم نہیں کرتیں۔

اشتہاری ہونے پر سزا بحال ہو چکی ہے اور عدالت اس وقت تک کوئی درخواست نہیں سن سکتی جب تک اشتہاری مجرم عدالت کے سامنے سرینڈر نہ کر دے۔

یہ امر قابل ذکر ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کی غیر موجودگی میں اپیلیں غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کرنے کے بجائے انھیں نان پراسیکیوشن یعنی عدم پیروی پر خارج کیا اور اس سے قبل نواز شریف کو عدالتی مفرور اور اشتہاری قرار دیتے ہوئے کہا کہ اپیلیں میرٹ پر دلائل سن کر نہیں بلکہ ٹیکنیکل گراؤنڈ یعنی عدم پیروی پر خارج کی جا رہی ہیں۔

قانونی ماہرین کے مطابق اس عدالتی فیصلے کا مطلب یہ ہے کہ اپیل کنندہ جب واپس آئے تو وہ سزا کے خلاف اپیلیں دوبارہ دائر کرنے کا حق رکھتا ہے۔

آنے والے دنوں میں ایک نیا مکالمہ سیاسی و قانونی ماہرین کے درمیاں شروع ہوگا کہ کیا نواز شریف کی تاحیات نااہلی برقرار رہے گی؟

سابق وزیر اعظم نواز شریف کی تاحیات نااہلی کا معاملہ پانامہ لیکس میں سپریم کورٹ کی طرف سے آیا تھا تاہم پی ڈی ایم اشتراک حکومت نے پارلیمنٹ سے الیکشن ایکٹ میں ترامیم کر کے تاحیات نااہلی کی مدت پانچ سال کر دی تھی۔

اور میری معلومات کیمطابق الیکشن ایکٹ میں اس ترمیم کو ابھی تک کسی نے بھی اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج نہیں کیا، جس کا مطلب ہے کہ یہ قانون ابھی تک برقرار ہے۔

ایسے میں ’اگر اسلام آباد ہائی کورٹ ایون فیلڈ اور العزیزیہ سٹیل ملز کے مقدمات میں سابق وزیراعظم کو دی جانے والی سزاؤں کو کالعدم قرار دے دیتی ہے تو پھر نواز شریف کی تاحیات نااہلی کا سوال ہی ختم ہو جاتا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق ایڈووکیٹ جنرل نیاز اللہ نیازی کا کہنا تھا کہ تاحیات نااہلی سے متعلق سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کا فیصلہ ابھی تک برقرار ہے اور اس فیصلے کی موجودگی میں ان سزاؤں کے کالعدم ہونے کے باوجود نواز شریف انتخابی عمل میں اس وقت تک حصہ نہیں لے سکتے جب تک سپریم کورٹ لارجر بینچ کے فیصلے کے خلاف کوئی درحواست دائر ہونے کی صورت میں کوئی حکم صادر نہیں کرتی۔

پریکٹس اینڈ سپروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر سپریم کورٹ کا جو فیصلہ آیا ہے اس میں بھی واضح ہے کہ ماضی میں از خود نوٹس پر جو بھی فیصلے آئے ہیں ان کے خلاف نطرثانی کی اپلیں دائر نہیں ہو سکتیں اور نواز شریف کی نااہلی بھی اس زمرے میں آتی ہے۔

واضح رہے کہ اتحادی حکومت کے دور میں وزیر دفاع خواجہ آصف نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ نواز شریف کی وطن واپسی اس وقت تک نہیں ہو گی جب تک رسک زیرو نہ ہو جائے۔ اور آج کے فیصلے سے بادی النظر میں خواجہ آصف کا بیان سچ ثابت ہو رہا ہے

ایسے میں ان کی واپسی کے اعلان اور موجودہ نگران سیٹ اپ میں ان کے پرنسپل سیکرٹری رہنے والے فواد حسن فواد کی نگران کابینہ میں شمولیت نے بھی سوالوں کو جنم دیا ہے۔

نواز شریف کے لیے فضا کافی سازگار ہو چکی ہے۔ موجودہ نگراں وفاقی و صوبائی حکومت ان کے خلاف کوئی انتقامی جذبہ نہیں رکھتی

بظاہر حالات یہی بتا رہے ہیکہ نواز شریف کے واپس آنے سے 2018 کا منظر دوبارہ دہرایا جا رہا ہے ’بس اس مرتبہ کرداروں کا فرق ہے۔‘

’آج ان کے حریف عمران خان سلاخوں کے پیچھے ہیں اور مسلم لیگ ن پر اقتدار کے دروازے کھل رہے ہیں جبکہ اس وقت عمران خان پر اقتدار کے دروازے کھلے تھے اور انھیں بے دخل کیا گیا تھا۔‘

نواز شریف کی واپسی ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب عدل کے ایوانوں میں ایک بڑی تبدیلی ہو چکی ، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اب چیف جسٹس آف پاکستان ہے میاں صاحب سمجھتے ہیکہ موجودہ چیف جسٹس کی موجودگی میں جو جج حضرات ان کے خلاف عناد رکھتے تھے وہ ماضی کی طرح فعال نہیں ہوں گے۔‘ اور ان کی واپسی کی بڑی وجوہات میں سے ایک یہی ہے حالانکہ وہ اپنے بھائی کے دور اقتدار میں بھی واپس آ سکتے تھے

نواز شریف کے لئیے چیلینجیز

پی ڈی ایم اشتراک دور حکومت میں معاشی عدم استحکام، مہنگائی، پیٹرول و بجلی کی بڑھتی قیمتیں یعنی کہ مکمل طور پر ایک ناکام حکومتی اشتراک کارکردگی نواز شریف کے لئیے سب سے بڑا چیلنج ہے اور اب کی بار نواز شریف کی ٹیم انہیں مکمل ہوم ورک کرکے بھیج رہی ہے یعنی کہ نون لیگ کو بلآخر یہ بات سمجھ آ چکی ہیکہ سوشل میڈیا کہ اس دور میں مظبوط بیانئے ہی انہیں عوام تک رسائی فراہم کرسکتے ہیں اسی لئیے نواز شریف مشکوک نوعیت کی بیماریوں کو چھوڑ کر مصنوعی بیانئے لے کر آ رہے ہیں اب دیکھنا یہ ہیکہ وہ بیانئے عوام قبول کرتی ہیکہ نہیں

پاکستان مسلم لیگ نون کے پاس بھی اب انتخابات میں جانے کے لیے نواز شریف ہی آخری آپشن رہ گئے ہیں باقی تمام آپشنز کو عوام نے رد کردیا ہے نون لیگ میں میاں صاحب اور ان کی بیٹی ہی کراؤڈ پلر ہیں اور وہ نئے بیانیوں سے عوام کا اعتماد حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔‘

میری زاتی رائے ہیکہ ان کے پاکستان واپس آنے سے ملکی سیاست پر جہاں اثر پڑے گا وہی پر ان کی جماعت بھی صحیح معنوں میں متحرک ہو جائے گی اور ان کے لئیے سب سے بڑا ایڈوانٹیج یہ ہیکہ اب کی بار تحریک انصاف مزاحمتی پوزیشن میں نہیں یوں انہیں بھرپور ماحول فراہم ہوگا بلکہ فراہم کیا جا رہا ہے اسی لئیے تو وہ واپس آ رہے ہیں نواز شریف کو ملکی سیاسی تاریخ میں سکیورٹی رسک قرار دے کر جنہوں نے پانامہ پر سزائیں دلوائی انہی کرداروں نے پھر لندن جا کر میاں صاحب سے ملاقاتیں کی یہ سب عیاں ہے۔‘

سب سے اہم ان کا استقبال ہو گا جو مسلم لیگ ن کی انتخابات میں کارکردگی کی سمت طے کرے گا۔‘

جب نظام کے کرتا دھرتاؤں نے کسی کو اقتدار میں لانے کا فیصلہ کیا ہوتا ہے تو ان کے پاس آفرادی قوت اس قدر موجود ہیکہ مینار پاکستان میں ایک بڑا مجمع سجانا ان کے لئیے مشکل نہیں

سوال یہ اٹھتا ہیکہ جو پلائینگ فیلڈ نواز شریف کے لئیے بنائی گئی ہے آیا اس کو ہموار کرنے میں عدالتیں معاونین کا کردار تو نہیں نبھا رہی ہے۔

عدالتوں میں موجود ججز صاحبان اور بلخصوص چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس فائز عیسی قاضی صاحب کو دیکھنا ہوگا کہ آیا دوسروں کی غلطیوں کو سدھارنے یا ان کی غلطیوں پر پردہ پوشی کے لئیے کیا عدالتوں کا کردار بنتا ہیکہ نہی یا عدالتیں صرف آئین کیمطابق فیصلے صادر کریں گی چاہئے اس کے لئیے آسمان ہی کیوں نہ ٹوٹ پڑے.
سالہا سال سے جیلوں میں قید مختلف بیماریوں میں مبتلاء قیدیوں کی لاکھوں کی تعداد میں علاج کی اجازت کی درخواستیں عدالتوں میں سماعت کی منتظر ہے، وہ بھی اس ملک کے شہری ہیں "ہاں” مگر وہ محروم و محکوم شہری ہے بااثر یا اشرافیہ سے ان کا تعلق نہیں۔

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button