خُدا کچھ اور سوچ رہا ہے
طاہر محمود پریشان تھا کہ اسکا کوئی بیٹا نہیں ہے۔ وہ خُدا سے دعائیں کرتا تھا کہ اُسے ایک بیٹا دے دے لیکن
چند روز پہلے میں سینٹ کے اجلاس میں موجود تھا، وہاں پر ہر سیاسی و مذہبی جماعت ٹرانجینڈر بل پر ترامیم لیکر آ رہی تھی، کیونکہ ٹرانسجینڈر بل عوام میں پذیرائی حاصل کر رہا تھا اور ہر جماعت چاہتی تھی کہ عوام میں وہ بھی مقبول ہوں۔ لیکن قدرت کچھ اور سوچ رہی ہے۔ ہری پور وفاقی دارلحکومت سے دور ہے، لیکن مارگلہ کی پہاڑیاں کے نزدیک ہے اور یہی پہاڑیاں خیبر پختنخواہ اور وفاقی دارلحکومت میں سرحد کا کام دے رہی ہیں شاید یہی پہاڑ پارلیمنٹ میں ہونیوالی قانون سازی ہری پور تک لے گئی اور قدرت نے ایک کیس ان مذہبی و سیاسی جماعتوں کے سامنے رکھ دیا ہے۔ ہری پور کے علاقے موضع درویش میں کسی درویش کی دعا کام کر گئی۔ یہاں کے رہائشی طاہر محمود جس کے گھر پانچ بیٹیاں پیدا ہوتی ہیں۔ طاہر محمود پریشان تھا کہ اسکا کوئی بیٹا نہیں ہے۔ وہ خُدا سے دعائیں کرتا تھا کہ اُسے ایک بیٹا دے دے لیکن اُسکے گھر بیٹا پیدا نہ ہوا ایسے میں اسکے دوسرے بڑی بیٹی میں عجیب تبدیلیاں پیدا ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ ماں باپ اس تبدیلی کو بھانپ لیتے ہیں۔ اور بیٹی کو کھلا بٹ جو کہ مقامی اسپتال ہے وہاں لیجاتے ہیں جہاں بیٹی جسکا کشف نام تھا اُسکا علاج شروع ہو جاتا ہے اور کچھ عرصے بعد ننھی کشف ابراہیم بن جاتی ہے ڈاکٹرز کے مطابق ہارمونل چینجز کی وجہ سے وہ مرد بن چُکی ہوتی ہے کیونکہ یہ قدرت کا عمل ہے، ماں باپ کشف کا نام ابراہیم رکھ دیتے ہیں اور نادرا سے اُسکا ب فارم بھی بنوا لیا جاتا ہے۔ اب وہ ایک مکمل لڑکا ہے۔ اس واقعہ نے ٹرانجینڈر بل، پارلیمان اور اُن جماعتوں کی سوچ پر سوال اٹھا دیا ہے جو ٹرانسجینڈرز سے اُنکے حقوق واپس لینا چاہتے ہیں۔ پارلیمان میں کیا ہو رہا ہے؟
ٹرانسجینڈر کمیونٹی، جنہیں ہمارے معاشرے میں خواجہ سرا، خنثہ، مخنث کہا جاتا ہے، انہیں ہمارا معاشرا کمزور ترین طبقہ مانتا ہے، کیونکہ یہ بیچارے بچپن سے ٹھکرا دئیے جاتے ہیں، انکے ماں باپ انہیں قبول نہیں کرتے کیونکہ معاشرہ لعن و طعن کریگا اور وہ ڈر جاتے ہیں۔ قیام پاکستان کے ستر سال بعد ٹرانسجینڈر کمیونٹی کو پارلیمنٹ آف پاکستان کی جانب سے ۲۰۱۸ میں قانونی حقوق ملے یا یہ کہیں کہ پہچان مل گئی اور اس وقت مختلف پارٹیوں کی جانب سے اس قانون میں چھ ترامیم قابل غور ہیں اور زیادہ تر ترامیم مذہبی جماعتوں کی جانب سےجمعہ کروائی گئی ہیں جبکہ ایک مذہبی جماعت تحریک لبیک پاکستان نے یہاں تک کہہ رکھا ہے کہ اگر یہ قانون واپس نہ لیا گیا تو ایک مرتبہ فیض آباد کا رُخ کر لیا جائیگا۔ جبکہ دوسری جانب جمعیت طلبا اسلام جس نے پہلے یہ بل واپس کروانے میں مدد کی تھی اور اسمیں شامل تھی وہ بھی شریعت کورٹ پہنچ گئی کہ اس قانون میں ترمیم کیجائے، جماعت اسلامی جو اس وقت حکومت کا حصہ تھی وہ بھی ترمیم لیکر پہنچ گئی۔ یہ سب وہ جماعتیں ہیں جو پہلے والی قانون سازی وقت خاموش تھی اور چار سال بعد مظلوم طبقے کے حقوق کو رُکوانے پہنچ گئی کہ ترامیم کی جائیں اور ترامیم میں سب سے اہم ترمیم یہ ہے کے کوئی اپنی جنس نہیں تبدیل کر سکتا ہے کیونکہ اس سے ہم جنس پرستی بڑھے گی۔ لیکن خُدا کچھ اور سوچ رہا ہے۔
کشف کے واقعہ نے ہمارے معاشرے کیساتھ ساتھ پارلیمنٹ میں بیٹھے وزرا اور ممبران کے لیے ایک نئی لہر بھیجی ہے کہ قدرت کے نظام میں مداخلت مت کرو، کسی کی جنس کو بنانے قدرت کا کام ہے، اور اگر کوئی علاج و معالجے سے ٹھیک ہو سکتا ہےتو اُس میں مداخلت مت کرو، اس ترمیم کی بہت سارے طبقات میں مخالفت ہوئی ہے جبکہ دوسری ترمیم کہ عورت خنثہ کی بھی عزت ہے کیا وہ میڈیکل بورڈ کے سامنے برہنہ ہو گی؟ کیا دوسری خواتین بھی اپنی پہچان کے لئے کسی میڈیکل بورڈ کے سامنے برہنہ ہوتی ہیں؟ یہ بہت سخت سوالات اور سخت امتحان ہے جس نے ہمارے معاشرے کے ساتھ ساتھ، عدلیہ اور پارلیمان کو بھی مشکل میں ڈال رکھا ہے، لیکن ان ترامیم کا جواب کشف کے واقعے میں موجود ہے کہ خُدا کچھ اور سوچ رہا ہے۔ خُدا چاہتا ہے کہ اس مظلوم طبقے کو بھی حقوق ملنا چاہیں۔ لیکن یہاں پر ابھی تک مزید ترامیم آ رہی ہیں جو پہلے سے بل پاس ہوا ہے اس کو تبدیل کرنے کے سوچ کے سب حامی ہیں لیکن یہ سوچ خُدا کی سوچ کے منافی لگ رہی ہے۔ اب تو انسانی حقوق کی کمیٹی کے چئیرمین ڈاکٹر ولید اقبال نے بھی یہ کہہ دیا ہے کہ وہ پہلے سے پاس ٹرانسجینڈر بل ۲۰۱۸ میں ترامیم کرینگے جیسے ممبران کہینگے کیونکہ وہ اُن سے ڈر گئے ہیں جو فیض آباد پر دھرنا دے دیتے ہیں اور اُنکے سامنے حکومتیں بے بس ہو جاتی ہیں شاید ہم ان ساری طاقتوں سے ڈرتے ہیں صرف خُدا سے نہیں ڈرتے لیکن خُدا کچھ اور سوچ رہاہے۔