پاکستان میں توہین مذہب قانون کا غلط استعمال ۔۔۔ تحریر: محمد ثاقب چوہدری
کسی کو رحمت العالمین حضرت محمد (ص) کی توہین کی اجازت نہیں دی جا سکتی اور نہ ہی توہین کرنے والے مجرم کو سزا کے بغیر چھوڑا جا سکتا ہے تاہم بعض اوقات مخالفین اپنے مذموم مقاصد کی خاطر قانون کا غلط استعمال کرتے ہوئے توہین رسالت کا جھوٹا الزام لگا دیتے ہیں۔ پاکستان میں توہین مذہب کے قانون کا بہت غلط استعمال کیا جاتا ہے، 1990 سے اب تک تقریباً 62 افراد توہین رسالت کے الزام پر قانون کے مطابق مقدمے کی سماعت سے قبل ہی موت کے گھاٹ اتارے جا چکے ہیں۔ یہاں تک کہ نامور شخصیات بھی ان میں شامل ہیں جن میں گورنر پنجاب سلمان تاثیر اور صوبائی وزیر شہباز بھٹی بھی شامل ہیں۔ جنہوں نے اس امر کا اعادہ کیا کہ توہین رسالت کے قانون کا چند افراد کے ہاتھوں غلط استعمال ہو رہا ہے۔ اس قانون کے غلط استعمال کی ایک مثال مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی کے طالب علم مشعال خان کا قتل ہے جسے اپریل 2017 میں یونیورسٹی کے احاطے میں مشتعل ہجوم نے اسے توہین آمیز مواد آن لائن پوسٹ کرنے پر قتل کردیا تھا۔
ایوب مسیح پر توہین مذہب کا الزام اس کے ہمسائے محمد اکرم نے لگایا تھا۔ یہ واقعہ 1996 میں پیش آیا اور ملزم کو گرفتار کر لیا گیا لیکن اس کے باوجود علاقے میں عیسائیوں کے گھر جلا دیے گئے اور 14 عیسائی خاندانوں کو اپنے گھر بار چھوڑ کر گاؤں چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا۔ بعد ازاں ملزم ایوب کو سیشن عدالت میں گولی ماردی گئی تاہم وہ اس حملے میں زندہ بچ گئے۔ بعد میں اس پر جیل میں دوبارہ حملہ ہوا۔عدالتِ عالیہ نے واضح ہوا کہ دراصل شکایت کنندہ ملزم کے پلاٹ پر قبضہ کرنا چاہتا تھا، اس نے ملزم کو مقدمے میں پھنسا کر اس کے سات مرلے کے پلاٹ پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ عدالت نے تمام شواہد دیکھنے کے بعد سزا کو کالعدم قرار دے دیا۔
جب تک کوئی شخص، چاہے وہ توہین رسالت جیسا سنگین جرم کا ملزم ہی کیوں نہ ہو، شفاف طریقہ سماعت کے بعد گناہ گار ثابت نہیں ہو جاتا، ہر شخص کو بلاامتیاز ذات پات، مذہب و نسل کے معصوم اور بے گناہ تصور کیا جائے گا۔
اس کے علاوہ سزا دینا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ کسی بھی فرد کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے اور خود سزا دینے کی اجازت نہیں ہے لیکن پاکستان میں الٹی گنگا بہتی ہے اور ہر فرد ہی جج و جلاد بن بیٹھتا ہے۔
عدالت عظمیٰ نے توہین مذہب کی ملزمہ آسیہ بی بی کی اپیل منظور کرنے اور استغاثہ کا مقدمہ مسترد کرنے کے حق میں جو دلائل دیے ہیں ان میں اہم نکات یہ ہیں۔
ملزمہ کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے میں پانچ دن کی تاخیر کی گئی جس سے شک ہوتا ہے کہ اس دوران اپیل کنندہ کے خلاف ایک منظم سازش تیار کی گئی۔ عدالت نے اس بارے میں استغاثہ کی یہ وضاحت مسترد کر دی کہ ایف آئی آر میں تاخیر اس لیے ہوئی کہ اس بارے میں حقائق کو پرکھا جا رہا تھا۔