قابل تجدید توانائی کے لئے ملکی سطح پر جامع و مربوط پالیسی سازی ناگزیر ہے
اسلام آباد:قابل تجدید توانائی پر منتقلی کے لئے طویل المدتی جامع و مربوط منصوبہ سازی اشد ضروری ہے۔ اس سے گردشی قرضوں میںکمی اور غیر یقینی معاشی صورتحال میں بہتری لائی جا سکتی ہے ۔ ان خیالات کا اظہار معاشی ماہرین نے پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی کے زیر اہتمام مقامی ہوٹل میں ”انتخابات 2024 ءکے بعد پاکستان میں توانائی کے شعبہ میں اصلاحاتی ایجنڈا و ترجیحات“ کے موضوع پر اعلیٰ سطحی مشاورتی اجلاس کے دوران کیا۔ ماہرین نے کہا کہ ونڈ سیکٹرمیں مقامی سطح پر کنکریٹ ٹاورز تیار کرنے میں مقامی افرادی قوت کو استعمال کر کے روزگار کی فراہمی اور نرخوں میں کمی لانے کی بھر پور گنجائش موجود ہے ۔
توانائی کے شعبہ کی بہتری کے لئے عمدہ پالیسی سازی ، بہتر نگرانی کے ذریعے توانا ئی کی بہتر کھپت پر حکمت عملی مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ ماہرین کے مطابق آنے والی حکومت کو چاہئے کہ وہ فضائی آلودگی کا سبب بننے والے ایندھن کی در آمد کی بجائے مقامی وسائل کی طرف تیزی سے منتقلی کرے۔ اس موقع پر نیپرا کے سابق چیئرمین توصیف ایچ فاروقی نے سستی ، قابل اعتماد اور آسان دستیاب توانائی کے پائیدار ذرائع کی طرف منتقلی پر زور دیا۔
انہوں نے مزید کہ کہ توانائی کے حصول کے لئے قابل تجدیدتوانائی کے حصے کو بڑھانا وقت کی انتہائی ضرورت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ در آمد ی ایندھن پر انحصار کم کیا جائے ۔ زر مبادلہ کی شرح اور عالمی تنازعات سے تحفظ اور توانائی کے شعبہ میں نقصانات و چوری سے پاک کرنے کی سخت حکمت عملی مرتب کی جائے۔ اس موقع پر سنٹر پبلک پالیسی کے ماہر ڈاکٹر خاقان نجیب نے کہا کہ وزارت توانائی کی چھوٹی ٹیم کے پاس انتقالِ توانائی کے اہداف موجود ہیں جن پر مو¿ثر انداز میںکام کرکے ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نجی شعبہ میں توانائی پیدا کرنے والے شعبہ کے خسارے میں کمی کے لئے پیٹرولیم کے نرخ، توانائی کے شعبہ کی نجکاری اورمحدود انسانی وسائل کے ساتھ بہتر معاشی پالیسی کی فوری ضرورت ہے۔
ڈاکٹر خاقان نے کہا کہ نیپرا اور اوگرا کو مارکیٹ کا رحجان بنانے والوںمیں اہم کردار ادا کرنا چاہئے اور اس میں بیرونی ماہرین کو بھی شامل کیا جائے ۔ قبل ازیں ایس ڈی پی آئی کے سر براہ ڈاکٹر عابد قیوم سلہری نے اپنے تعارفی کلمات میں کہا کہ پاکستان کو توانائی معیشت او ہندسہ جاتی تبدیلی جیسے مشکلات کا سامنا ہے جس کے لئے آنے والی حکومت کو عملاً قابل عمل حکمت عملی سے آگے بڑھنا ہو گا ۔ انہوں نے کہا کہ مسائل کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو یہ امر واضع ہو تا ہے کہ مسائل ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں ۔ ان کو یکساں حل کیا جائے ۔ڈاکٹر سلہری نے مزید کہا کہ معیشت سے متعلقہ تمام مشکلات کو حل کرنے کے لئے ضروری ہے تمام شعبہ جات کا مشترکہ جائزہ لے کر بہتر طور پر حکمرانی کے اسلوب سے عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے اور جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کو فروغ دیا جائے ۔
انہوں نے مزید کہا کہ مشترکہ فورم کا مقصد حکومت کی ہر ممکن راہنمائی کرنا اور پاکستان اور اس کے عوام کے لئے مشکلات سے نجات دلانے کے لئے ممکنہ حکمت عملی تجویز کرنا ہے۔ تاکہ نظام میں بہتری اور پاکستان کو ترقی کی راہ پر عملاً گامزن کیا جا سکے۔ اس موقع پر ایس ڈی پی آئی کے ڈاکٹر خالد ولید نے کہا کہ موجودہ توانائی کے بحران سے نبردآزما ہونے کے لئے ضروری ہے کہ قابل تجدید توانائی پر انحصار بڑھایا جائے اور توانائی کے فرسودہ ترسیلی نظام کو بہت کیا جائے۔مشاورتی مباحثے سے اظہار خیال کرتے ہوئے ونڈ توانائی کے نمائندے تنویر مرزا نے تجویز دی کہ ترقی کے اہداف کو حاصل کرنے کے طویل المدتی پالیسی سازی اور قانون سازی کے ذریعے عمل درآمد کویقینی بنایا جائے۔ نئی حکومت کو قابل تجدید توانائی کے ذرائع کے استعمال کے حوالے سے ریاستی نگرانی کے عمل کو ممکن بنانا ہو گا۔
اس موقع پر سبز توانائی پر کام کرنے والے ادارے کے سر براہ و دانشور بدر عالم نے کہا کہ نئی حکومت قابل تجدید توانائی پر ہر ممکن حوصلہ افزائی کو تقینی بناتے ہوئے عام خریدارو ں کی قوتِ خرید کے تناظر میں بہتر فیصلے کرنے ،توانائی کی ترسیل میں غیر ضروری رکاوٹ و چوری کو آہنی ہاتھوں سے روکنے کے عمل کو یقینی بنائے۔ اس موقع پر ایس ڈی پی آئی کے انجینئر عبید الرحمن ضیاءنے کہا کہ توانائی کے شعبہ میں ہنگامی اصلاحات کے بغیر معاشی خوش حالی کی طرف قوم کو نہیں لے کر سکتے ۔ حکومت کو ملکی ضرورت کے پیش نظر عوام کی معاشی حالت کودیکھتے ہوئے فیصلہ سازی کرنا ہو گی۔