ایس ڈی پی آئی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر عابد سلہری وزیراعظم کی موسمیاتی فنڈز کمیٹی کے رکن نامزد

اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی (ایس ڈی پی آئی )کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر عابدقیوم سلہری کو ماحولیاتی تبدیلی کی گورننس اور کلائمیٹ فنڈز تک رسائی کے طریقہ کار کا جائزہ لینے کے لئے وزیر اعظم کی کمیٹی کا رکن نامزد کیا گیا ہے۔ وزارت موسمیاتی تبدیلی و ماحولیاتی رابطہ کی وزیر کی طرف سے جاری ایک تفصیلی نوٹیفکیشن میں کمیٹی کے مقاصد،دائرہ اختیاروکار، اور ارکان کی وضاحت کی گئیہے۔ نوٹیفکیشن کے مطابق کمیٹی کی سربراہی ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمیشن کریں گے ۔سرکاری حکام، اراکین پارلیمنٹ، سول سوسائٹی اور ماحولیات کی این جی اوز، نجی شعبے، تحقیقی اداروں کے نمائندے اور مخصوص موضوعات پر معلومات رکھنے والے ماہرین/ مشیر کمیٹی کا حصہ ہوں گے۔
کمیٹی میں ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمیشن محمد جہانزیب خان، وزیراعظم کی کوآرڈینیٹر برائے موسمیاتی تبدیلی رومینہ خورشید عالم، سینیٹر عائشہ رضا فاروق، ایم این اے بلال کیانی، ایگزیکٹو ڈائریکٹر ایس ڈی پی آئی ڈاکٹر عابدقیوم سلہری، کشمالہ کاکاخیل، کلائمیٹ فنانس ایکسپرٹ رضوان محبوب، کلائمیٹ ایکسپرٹ علی توقیر شیخ،کلائمیٹ فنانس ایکسپرٹ احسن کامران اور نادیہ رحمان ممبر سی سی پی سی بھی شامل ہیں۔ سکریٹری وزارت تجارت، سکریٹری ایم او پی ڈی ایس آئی اور سکریٹری وزارت ای اے اور ایڈیشنل سکریٹری (ای ایف) وزارت خزانہ بھی کمیٹی کا حصہ ہونگے۔کمیٹی ایسے طریقہ کار کی تجویز پیش کرے گی جس میں تمام سرکاری اداروں اور آپریشنز میں آب و ہوا کے معاملات کو مرکزی دھارے میں لانے کے ساتھ ساتھ انہیں ترقیاتی ایجنڈے اور پائیدار ترقیاتی اہداف (ایس ڈی جیز) میں ضم کیا جا سکے۔
علاوہ ازیں کمیٹی کے دائرہ اختیار میں نیشنل کلائمیٹ چینج کونسل، ایس آئی ایف سی، مجوزہ کلائمیٹ چینج اتھارٹی، کلائمیٹ چینج فنڈ، نیشنل ڈیزاسٹر رسک مینجمنٹ فنڈ جیسے مجوزہ ادارہ جاتی میکانزم اور اہم وزارتوں سے کوآرڈینیشن کا جائزہ لینا بھی شامل ہے۔ کمیٹی کثیر الجہتی ترقیاتی بینکوں (ایم ڈی بیز) کے ساتھ روابط بڑھانے کے لئے ادارہ جاتی میکانزم اور پالیسیوں کا جائزہ لینے کی بھی سفارش کرے گی تاکہ مالیاتی لاگت کو کم کیا جا سکے اور گرانٹس، گارنٹیز اور رعایتی ماحولیاتی فنڈز کے ذریعے نجی شعبے کی سرمایہ کاری سے فائدہ اٹھایا جا سکے۔
کمیٹی موسمیاتی گورننس کو مضبوط بنانے، آب و ہوا اور کاربن فنانس تک رسائی کے لئے سفارشات پیش کرنےکے علاوہ نجی شعبے کو صنعتوںکی ڈی کاربنائزیشن کو فروغ دینے، گرین ویلیو چینز میں ضم کرنے اور کاربن بارڈر ایڈجسٹمنٹ جیسے ابھرتے ہوئے بین الاقوامی ریگولیٹری میکانزم کے مطابق برآمدات کو فروغ دینے کےلئے متحرک کرے گی۔ مزید برآں پالیسی کی وکالت اور تشکیل میں میڈیا، تعلیمی اداروں اور تحقیقی اداروں کے کردار کو واضح بھی کرے گی۔

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button