یو این کا اسرائیل کو نسل پرست ریاست سمجھنا فلسطینی کاز کی سچائی پر مہر تصدیق ہے‘ڈاکٹر خالد قدومی

لاہور(پ ر)فلسطینی رہنما ڈاکٹر خالد قدومی نے اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے 48 ویں وزارتی کونسل کے اجلاس میں مسئلہ فلسطین اور کشمیر پر مسلم ممالک کے وزرائے خارجہ کی دیرینہ وابستگی کو سراہتے ہوئے کہا کہ فلسطین دہائیوں سے غاصب اسرا ئیلی حکومتوں کے خلاف آزادی کی جنگ لڑ رہا ہے۔ عام فلسطینی اپنی مزاحمت سے اسرائیل کو اگر ناکوں چنے چبوا سکتے ہیں تو ایسے میں عالم اسلام مل کر مشرق وسطیٰ کے ناسور کو سبق سکھانے کی کتنی اہلیت رکھتا ہے اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے اتوار کے روز لاہور کے ایک مقامی ہوٹل میں یونیفائیڈ میڈیا کلب پاکستان کے زیر اہتمام نوجوان صحافیوں اور دانشوروں کے ساتھ نشست سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ نشست میں صدر کلب محمد حسان، لاہور پریس کلب کے جنرل سیکرٹری عبدالمجید ساجد اور دیگر صحافی حضرات شریک ہوئے۔ مہمان خصوصی فلسطینی رہنما ڈاکٹر خالد قدومی نے نشست کی صدارت کی۔
انہوں نے حالیہ یوم الارض کے موقع پر اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے مائیکل لنک کے تاریخ ساز بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ تمام انصاف پسند عوام سمجھتے ہیں کہ’’1967 میں اسرائیلی تسلط میں آنے والی فلسطینی اراضی میں دوہرے معیار کا عکاس قانونی اور سیاسی نظام موجود ہے جو نسل پرستی کی لعنت سے اٹا پڑا ہے۔ یہ نظام مغربیی کنارے اور القدس میں قائم 300 سے زائد یہودی بستیوں میں بسنے والے سات لاکھ یہودی آبادکاروں کے غیر معمولی حقوق کے تخفظ کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔‘‘’’غزہ میں دو ملین فلسطینی بقول مائیکل لنک ’’دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل‘‘میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ناکافی بجلی پانی اور صحت کی سہولیات کے ساتھ انہیں روز بروز گرتی ہوئی معیشت کا سامنا ہے۔ یہ لوگ فلسطین اور بیرونی فلسطین آزادی کے سفر جیسی بنیادی انسانی حقوق سے بھی محروم ہیں۔‘‘ڈاکٹر خالد قدومی نے مسلم اور عرب ممالک کے عوام کا خصوصی شکریہ بھی ادا کیا اور کہا کہ ان ممالک کے عوام کے دل صاف ہے۔ چند حکمران اور چند ممالک ہیں جو ذاتی مفاد کی خاطر اسرائیل کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں وگرنہ عام تصور بدل رہا ہے”. علمی سطح پر مسلم دنیا خصو صا پاکستان میں مسئلہ فلسطین کے کمزور مقدمے پر ایک سوال کے جواب میں فلسطینی رہنما نے کہا کہ مسلم ورلڈ کے سکالرز کو مسئلہ فلسطین کے مختلف زاویوں کو اپنے علم و تحقیق کا مو ضوع بنانا چاہیے۔

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button