اسلام آباد شہر میں تمام کچی آبادیوں کو مالکانہ حقوق یا متبادل جگہ دی جائے، صرف ریئل اسٹیٹ کے بڑے مگرمچھوں کا شہر پر حق نہیں۔ عاصم سجاد

سی ڈی اے کے مسلسل کچی آبادیوں کو مسمار کرنے کے عمل کی شدید مذمت کرتے ہیں، اگر یہ سلسلہ نہ روکا گیا تو سی ڈی اے آفس کے باہر دھرنا دیں گے

اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) سی ڈی اے اور اسلام آباد انتظامیہ کی جانب سے وفاقی دارالحکومت میں کچی آبادی کے مکینوں کی بےدخلی کے نہ ختم ہونے والے سلسلے کے خلاف اسلام آباد کی مختلف بستیوں کے کچی آبادیوں کے نمائندوں نے پیر کو اسلام آباد میں نیشنل پریس کلب میں پریس کانفرنس اور پرامن احتجاج کیا۔

اسلام آباد شہر میں مزدور طبقہ کے لیے رہائش نہ ہونے کی وجہ سے کچی آبادیاں وجود میں آتی ہیں۔ ریئل اسٹیٹ کو لگام دی جائے اور عام آدمی کی آمدنی کے مدنظر ہر سیکٹر میں رہائش کا انتظام کیا جائے۔ کچی آبادیوں کو یا تو مالکانہ حقوق دیئے جائیں یا پھر متبادل جگہ اور کسی بھی صورت میں متبادل دیئے بغیر آبادیوں کو مسمار نہ کیا جائے۔ ان خیالات کا اظہار آل پاکستان الائنس برائے کچی آبادی کے قائدین نے گزشتہ روز نیشنل پریس کلب میں خصوصی پریس کانفرنس کے دوران کیا۔ پریس کانفرنس کے اختتام پر سی ڈی اے کی جانب سے مسماریوں کے خلاف پر یس کلب کے باہر احتجاجی مظاہرہ بھی کیا گیا۔

جبری مسماری اور بے دخلیوں کا تازہ ترین سلسلہ دارالحکومت میں مزدور بستیوں کے تباہ کن نتائج کے ساتھ غیرمعمولی رفتار سے آیا ہے۔ صرف پچھلے چند مہینوں میں، 7 بستیوں کے بڑے حصوں کو مسمار کیا گیا ہے، جن میں شامل ہیں: ای الیون کچی آبادی، نیول ہیڈ کوارٹر کے قریب چونترا، سنیاڑی، گھیا دیہاتوں کے حصے، ایف الیون میں گاؤں بھیکا سیداں، شاہ اللہ دتہ کے قریب جدی دیہات پنڈ سنگڑیال، ایچ الیون اور آئی بارہ کے قریب کچی آبادی، ملپور کے قریب ڈھوک ٹاہلیاں، ضیاء مسجد کے قریب جبہ تیلی، چھبیس نمبر چونگی کے قریب ڈھوک کھوکھراں۔ ان میں سے چار بستیوں میں مسماری کی وجوہات سڑکوں کی تعمیر کے لیے جگہ پیدا کرنا ہے حالانکہ ان آبادیوں کے آس پاس کافی غیرآباد اراضی موجود تھی یا اگر ریاست آئین میں درج پناہ کے حق کو بجا طور پر ترجیح دیتی تو ان بستیوں کو بچانے کے لیے منصوبے تبدیل کیے جا سکتے تھے۔ جدی دیہات شاہ اللہ دتہ اور پنڈ سنگڑیال میں جاری آپریشن کے دوران سینکڑوں لوگوں پہ جعلی ایف آئی آر درج کی گئی جس کی ہم شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ فی الفور ایف آئی آر واپس لی جائے اور لوگوں کو ان کی زمینوں کا معاوضہ دیا جائے۔

کچی آبادی الائنس کے چیئرپرسن ڈاکٹر عاصم سجاد نے کہا کہ مہذب معاشرے میں بےدخلیوں کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی اور وفاقی دارالحکومت کے محنت کش طبقے کے رہائشیوں کو ’تجاوزات‘ گرانے کے نام پر ان کے گھروں اور ذریعہء معاش سے مسلسل بےدخل کیا جاتا ہے۔ تاہم، دولت مند اور طاقتوروں، زمینوں پر قابض افراد، بشمول ریاستی افسران، مکمل استثنیٰ قرار دیئے جاتے ہیں، جب کہ کچی آبادی کے ایک عام سے رہائشی کو بجلی اور گیس کے میٹروں کی تنصیب جیسے جائز معاملات کے لیے بھی سی ڈی اے، آئیسکو اور دیگر سرکاری محکموں کے اہلکاروں کو ادائیگیاں کرنا پڑتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ طبقاتی نسل پرستی ناقابل قبول ہے اور کچی آبادی کے رہائشیوں کا شہر پر اتنا ہی حق ہے جتنا پراپرٹی ڈویلپروں اور اشرافیہ کے محلوں کے رہائشیوں کا ہے۔

احتجاج میں یہ بھی کہا گیا کہ ان مسماریوں کی بڑی وجہ منافع کو ترجیح دیا جانا ہے اور مزدور طبقے کے لوگوں کو زمین خالی کرنے کے لیے ’تجاوزات‘ کے جھوٹے لیبل لگا کر بےدخل کیا جا رہا ہے۔ سی ڈی اے اور پرائیویٹ ڈویلپروں نے ایک خارجی زوننگ پالیسی کو نافذ کیا ہے، جس کے تحت غیرحقیقی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے اور سڑک اور عمارتوں میں سرمایہ کاری کے باعث غیرمعقول حد تک منافع کو بڑھایا گیا ہے جس سے امیر اور نجی ڈویلپر مزید فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، بھیکا سیداں، ایف الیون میں تقریباً سو تعمیرات کو مسمار کر دیا گیا، تاکہ ترقیاتی اتھارٹی اس زمین کو شاپنگ سینٹر کے لیے فروخت کر سکے، واضح طور پر ہاؤسنگ پر آمدن کو ترجیح دی جائے۔

اسلام آباد کے منصوبہ کے تحت بننے والے سیکٹروں میں مسماری عام کی جا رہی ہے، جہاں زمینی تنازعات اور زمینی قبضے کے ناقص انتظامات، زمین کے حصول کے غیر منصفانہ طریقوں اور سی ڈی اے کی منظور شدہ غیر رسمی آبادیوں کو من مانی ترقی کی اجازت دی جاتی ہے (شہر کے غریب ترین افراد سے غیر قانونی کرایہ وصول کرنے کے بعد) اور پھر مسمار کر دیا جاتا ہے۔ اب اسلام آباد کے زون 4 اور 5 میں جبری قبضے اور مسماری کی سختی میں بھی تیزی آ گئی ہے۔ ضیاء مسجد کے قریب جبہ تیلی گاؤں میں، سی ڈی اے چک شہزاد تک جانے والی سڑک اور فارم ہاؤس تک رسائی کو بہتر بنانے کے لیے زمین حاصل کر رہا ہے اور کچھ انتہائی کمزور آبادیوں کے گھروں کو مسمار کر رہا ہے۔ یہ طبقاتی جنگوں کا ایک واضح اور ناقابل جواز معاملہ ہے جہاں پرائیویٹ ڈویلپروں اور اشرافیہ طبقے کے رہائشیوں کے لیے، پرائیویٹ ہاؤسنگ سوسائٹیاں اور فارم ہاؤس کے اعلیٰ املاک کی قدریں پیدا کرنے کے لیے، محنت کش طبقے کے محلوں کو تباہ کیا جا رہا ہے۔

اسی طرح کی آئندہ مسماریاں ای بارہ، جی بارہ اور ایف بارہ سیکٹروں کی تعمیری منصوبوں میں شامل ہیں۔ ان سیکٹروں میں سی ڈی اے نے شہر کی آبادی کے غریب ترین طبقات، نقل مکانی کرنے والے افراد اور بےگھر ہونے والے سے غیر رسمی کرایہ لے کر یہاں آباد ہونے اور بستیاں آباد کرنے کی اجازت دی۔ کچی آبادی کے نمائندوں نے ٹینتھ اور الیونتھ ایوینیو جیسے راستوں کی تعمیر کے بارے میں بھی تشویش کا اظہار کیا جس نے پہلے ہی کئی مزدور طبقے کی بستیوں کو اکھاڑ پھینکا ہے اور رمشا کالونی جیسی بڑی کچی آبادیوں کو خطرہ لاحق ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ترقی‘ محنت کش لوگوں کے گھروں کو مسمار کرنے کا بہانہ نہیں ہو سکتی اور کچی آبادی اتحاد قابل عمل حل تلاش کرنے کے لیے سی ڈی اے کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہے لیکن اگر بے دخلیوں کو نا روکا گیا تو ہم مزاحمت کریں گے۔ مقررین نے زور دے کر کہا کہ سپریم کورٹ نے آئی الیون کچی آبادی کی مسماری کے بعد 2015 کے کیس میں بے دخلی پر حکم امتناعی جاری کیا ہے۔

کچی آبادی الائنس کی عائشہ شاہد نے کہا کہ سی ڈی اے کے طویل المدتی منصوبہ میں تبدیلی ہونی چاہیے تاکہ محنت کش طبقے کے رہائشیوں کو سستے مکانات کی ضمانت دی جا سکے، خاص طور پر بڑی تعداد میں نقل مکانی کے پیش نظر جو کم آمدنی والے گھروں کی قلت کو بڑھا رہی ہے۔ عائشہ نے اس بات پر زور دیا کہ شہر کو غیر منافع بخش ہاؤسنگ کے لیے زمین مختص کرنے کی ضرورت ہے تاکہ آئی سی ٹی کے تمام زونوں میں کم آمدنی والی بستیوں کے لیے مستقل طور پر سستی رہائش کا ذخیرہ بنایا جا سکے۔ اس بات کو بھی یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ گیٹڈ ہاؤسنگ اسکیمیں کم آمدنی والے رہائشیوں کے لیے پلاٹوں کا ایک خاص فیصد محفوظ رکھیں۔

محمد اقبال جہاں، جنرل سیکرٹری عوامی ورکرز پارٹی راولپنڈی اسلام آباد، نے کہا کہ ٹینتھ اورالیونتھ ایوینیو کی تعمیر میں گزشتہ عرصے میں بہت سی چھوٹی آبادیوں کو مسمار کیا گیا اور یہ ظلم کی انتہاء ہے کہ ”ترقی“ کے نام پر عوام کو چھت سے محروم کیا جائے۔ سیکٹر ایچ نائن میں رمشا کالونی بھی ٹینتھ ایوینیو کی وجہ سے خطرہ میں ہے لہٰذا اس طرح کے منصوبوں کی ہم مخالفت کرتے ہیں اور اگر سی ڈی اے رمشا کالونی اور دیگر اس طرح کی آبادیوں کے وجود کو تسلیم کر کے آگے بڑھے گا تو ہم ساتھ چلیں گے وگرنہ ہم پرامن احتجاج کے ذریعے اپنے حقوق منوائیں گے۔ اس موقع پر ایچ نائن رمشا کالونی، آئی ٹین مسلم کالونی، ایف سیون فور فرانس کالونی، جی سیون ٹو 66 کوارٹر آبادی اور دیگر کے نمائندوں نے اپنے مخصوص مسائل بیان کئے۔

بخشل تھلہو، جنرل سیکرٹری عوامی ورکرز پارٹی نے کہا کہ کبھی ریڑھی بانوں تو کبھی کچی آبادیوں کو پولیس اور سی ڈی ا ے کا عملہ نشانہ بناتے ہیں چنانچہ سب سے پہلے اس اصول کو تسلیم کیا جائے کہ کسی کے چھت کو ”غیر قانونی“ کہہ کر بلڈوز نہیں کیا جائے گا اور اگر سی ڈی اے کو جگہ ہر صورت میں خالی کرانی ہے تو رہائش کے لیے متبادل جگہ دی جائے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام آباد شہر کے اندر ان گنت بڑی ہاؤسنگ اسکیمیں ہیں، جن کو قانون کی دھجیاں اڑا کر بنایا گیا لیکن آج دن تک بڑے مگرمچھوں کو سی ڈی اے نے قانون کی بالادستی کے نام پر نہیں نکالا۔

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button