آزاد کشمیر کی انوار سرکار ۔۔بے کار ۔۔۔ تحریر: انجینئر اصغرحیات

ایک صاحب کو وزیر بننے کی شدید خواہش تھی، نئے نئے رکن اسمبلی منتخب ہوئے اور بہت ہی تگ و دو کے بعد ان کا نام بھی جھنڈی والوں کی فہرست میں آگیا، لیکن حلف برداری کی تقریب رک گئی، وہ صاحب مارے مارے ادھر ادھر پھریں اور ہر شخص سے پوچھیں کے تقریب حلف برداری کب ہوگی؟ پھر ایک دن ایوان صدر سے خوشخبری ملی کہ وزراء آج حلف اٹھائیں گے، اس حلف برداری کی تقریب کو 3 ماہ گزر گئے، صاحب ہر کسی سے پوچھتے پھرتے ہیں انہیں محکمے کب ملیں گے؟ حتی کہ درباروں پر بھی حاضری دے کر دعائیں کر چکے لیکن نہیں۔
آزاد کشمیر کی موجودہ کابینہ کے وزراء کی اکثریت کی یہی کہانی ہے، وزیر تو ہیں لیکن کس چیز کے کوئی پتہ نہیں؟ جھنڈی مل گئی، گاڑی مل گئی لیکن مل گئی لیکن دفتر کوئی نہیں، جس سیکرٹری کے پاس جاتے ہیں چائے پلا کر واپس بھیج دیتا ہے، بیوروکریسی بات سننے کو تیار نہیں، دوسری طرف عوام مسائل کے حل کیلئے رابطہ کرتے ہیں، عوام کو کیا جواب دیں کوئی پتہ نہیں، اس لیے اکثر وزراء فون بند کیے بیٹھے ہیں، رواں سال 20 اپریل کو جب سے چوہدری انوار الحق وزیراعظم بنے ہیں تب سے ریاست کے امور کچھ اس طرح چلائے جارہے ہیں
52 کے ایوان میں 48 ووٹ لیکر بھاری مینڈیٹ کیساتھ وزیراعظم منتخب ہونیوالے چوہدری انوار الحق نے پہلا کام یہ کیا کہ وزراء کی تعداد 16 سے بڑھا کر 29 کردی، بلکہ 15 ویں ترمیم کے ذریعے آنے والے وزرائے اعظم کو یہ اختیار دیدیا کہ وہ تمام کے تمام 53 ارکان اسمبلی کو وزیر بنا سکتے ہیں، اور ہوسکتا ہے آنے والے وقت میں ایسا بھی ہو جائے، ابھی بھی 5 ہزار مربع میل اور 41 لاکھ آبادی والی ریاست میں وزراء کی تعداد 29 ہے لیکن دلچسپ امر یہ ہے کہ 29 سیکرٹریز بھی نہیں، یعنی 29 محکمے ہی نہیں، اس طرح صوابدیدی عہدوں کو ملا کر جھنڈی والوں کی کل تعداد 35 ہوچکی ہے، یعنی روح ریاست پر ہر طرف جھنڈیاں ہی جھنڈیاں ہیں
سردار تنویر الیاس کی حکومت نے آزادکشمیر میں 31 سال بعد بلدیاتی انتخابات کروائے، باہر سے سیکورٹی لیے بغیر اپنی مدد آپ کے تحت ریاست بھر میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ایک زبردست کارنامہ تھا، ان بلدیاتی انتخابات پر آزاد کشمیر کے خزانے سے اربوں روپے خرچ ہوئے، لیکن انوار سرکار نے آکر ان منتخب بلدیاتی نمائندوں کو اختیارات دینے سے انکار کردیا ہے، آزاد کشمیر کے حالیہ بجٹ میں ان بلدیاتی اداروں اور نمائندوں کیلئے کوئی فنڈ نہیں رکھا گیا، جس کے باعث ریاست بھر میں بلدیاتی نمائندے سراپا احتجاج ہیں، اگر وزیراعظم چوہدری انوار الحق لوکل گورنمنٹ ایکٹ 90 کے مطابق مقامی حکومتوں کو فنڈز کا اجراء کرتے تو ان کے مقام اور مرتبے میں اضافہ ہوتا لیکن نہیں، چوہدری انوار الحق نہ تو مقامی حکومتوں کو اختیار دینا چاہتے ہیں اور نہ ہی منتخب اراکین اور وزراء ریاست کو بلکہ تمام اختیارات اپنی مٹھی میں رکھنا چاہتےہیں

وزیراعظم آزاد کشمیر چوہدری انوارالحق سادگی اور درویشی کا بہت پرچار کرتے ہیں، انہوں نے وزیراعظم سیکرٹریٹ کے اخراجات میں کمی کا دعوی کیا ہے، لیکن وزراء کی تعداد 16 سے بڑھا کر 29 کرنے اور وزراء کی اس فوج کو نئی گاڑیاں دینے اور انہیں پروٹوکول دینے سے کیا ریاست پر بوجھ کم ہوگا یا بڑھے گا، وزیراعظم ہاوس کے ویٹرز کی چائے اور پتی بند کرنے اور سابق وزراءے اعظم کو 14 کروڑ 77 لاکھ فارچونر گاڑیاں دینے سے کیا ریاست پر بوجھ کم ہوگا یا بڑھے گا؟ کشمیر ہاوس میں قیام کرنے اور مہینہ مہینہ ریاست کا منہ نہ دیکھنے سے کیا ریاست کے مسائل حل ہونگے یا ان میں اضافہ ہوگا؟

آزاد کشمیر میں آٹے کا بحران شدت اختیار کرگیا ہے اور عوام سراپا احتجاج ہیں، کوٹے کی پوری گندم ملنے کے باوجود آٹے کا بحران دن بدن بڑھتا کیوں جارہا ہے؟ کیا آزاد کشمیر کا آٹا اسمگل ہورہا ہے؟ اس اسمگلنگ کو روکنا کس کی ذمہ داری ہے؟ ریاست میں اگر اساتذہ اپنے جائز مطالبات کیلئے آواز اٹھائیں تو ریاست گیر پولیس کریک ڈاون ہوتا ہے، خواتین اساتذہ تک کو جیلوں میں بند کیا جاتا ہے، لیکن کریک ڈاون نہیں ہوتا تو مافیا کیخلاف، انوار سرکار کا بس غریبوں پر چلتا ہے، مافیا پر ہاتھ ڈالنا اس کے بس کی بات نہیں ہے

آزاد کشمیر کی موجودہ حکومت معلمین قرآن کے مسائل حل نہیں کرسکتی کہ خزانے پر بوجھ پڑے گا، لیکن ایک وزیر صاحب جن کے پاس کوئی قلمدان بھی نہیں ہے انہیں 6 کروڑ مالیت کی زمین صرف 48 لاکھ روپے میں الاٹ کردینے سے خزانے سے بوجھ کم ہوتا ہے، واضح رہے کہ وزیر صاحب ابھی بھی تگڑی ترین وزارت کیلئے کوشاں ہیں، بلکہ بلیک میلنگ میں مصروف ہیں، وزیراعظم چوہدری انوار الحق کے اپنے بھائی پر نیلم میں جنگلات کی زمین پر قبضے کا الزام ہے اور اس حوالے سے خبریں اخبارات اور سوشل میڈیا کی زینت بن چکی ہیں لیکن وزیراعظم صاحب کیوں نوٹس لیں گے؟

کشمیر ہاوس میں تشریف فرما وزیراعظم چوہدری انوار الحق کا دل کرے تو کبھی کبھار ریاست کے دورے پر آجاتے ہیں، ہاں کشمیر ہاوس میں بیٹھ کر کبھی ایک حکمنامہ جاری کرتے ہیں اور پھر تھوڑے ہی عرصے بعد عوامی ردعمل کو دیکھ کر اسے واپس بھی لے لیتے ہیں، سمجھ نہیں آرہی کہ ریاست کے امور چلائے کیسے جارہے ہیں، بجلی کے بھاری بھرکم بلات پر عوام سراپا احتجاج ہیں، راولاکوٹ میں عوامی ایکشن کمیٹی کے دھرنے کو 100 دن سے زائد ہوگئے ہیں، 5 ستمبر کو ریاست گیر ہڑتال اور سول نافرمانی کا اعلان کیا جاچکا ہے، لیکن ریاست کے وزیراعظم ہیں کہ ٹس سے مس نہیں ہورہے، سمجھ نہیں آتی وزیراعظم صاحب کب جاگیں گے جب پانی سر سے گزر جائے گا؟

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button