ملک کی 74 فیصد آبادی صحت مند غذا سے محروم ہے: ڈاکٹرعامر ارشاد

اسلام آباد: پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی (ایس ڈی پی آئی) اور گلوبل الائنس فار ایڈوانسڈ نیوٹریشن (جی اے این) نے جمعرات کو ”موسمیاتی تبدیلی اور غذائیت کی صورتحال کے درمیان پاکستان کی فوڈ سیکیورٹی پالیسی کا جائزہ“کے عنوان سے ایک مشاورتی مباحثے کا انعقاد کیا جس کا مقصد موجودہ پالیسی میں خامیوں اور غذائی تحفظ اور آب و ہوا کی لچک کو بہتر بنانے کے لئے آگے بڑھنے کے راستے پر تبادلہ خیال کرنا تھا۔ اپنے افتتاحی کلمات میں ایس ڈی پی آئی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر عابد قیوم سلہری نے کہا کہ وزارت نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ تبدیلی کے ایک مرحلے سے گزر چکی ہے جس کا مقصد اسے ایک جامع اور طاقتور فورم میں تبدیل کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت دنیا کو مختلف چیلنجوں کا سامنا ہے چونکہ آب و ہوا کی تبدیلی نے فوڈ سیکورٹی کی تمام شرائط کو چیلنج کیا ہے لہذا موجودہ فوڈ سیکورٹی پالیسی کا جائزہ لینا ضروری ہے۔انہوں نے کہا کہ پائیدار ترقیاتی اہداف ،غذائی تحفظ اور غذائی قلت سے نمٹنے کا دوسرا سب سے اہم جزو ہیں کیونکہ ملک کے 190 ملین سے زیادہ لوگوں کو تحفظ اور بھوک کے بحران کا سامنا ہے۔ایس ڈی پی آئی کے ڈپٹی ایگزیکٹو ڈائریکٹر قاسم علی شاہ نے کہا کہ بڑھتے ہوئے ماحولیاتی بحران، تنازعات، معاشی سست روی نے 2030 تک ایس ڈی جی 2 کے حصول کوناقابل عمل بنا دیا ہے۔ نیشنل فوڈ سیکیورٹی پالیسی 2016 کے تحت مختلف اہداف حاصل کئے گئے جبکہ ان میں سے کچھ ناکام رہے۔ تاہم، اس نے پاکستان میں غذائی تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے ایک مناسب فریم ورک فراہم کیا ۔ انہوں نے کہا کہ 2016 میں تقریبا 18 فیصد آبادی غذائی قلت کا شکار تھی جبکہ اس وقت 19 فیصد آبادی غذائی قلت کا شکار ہے اور 42 فیصد آبادی شدید غذائی عدم تحفظ کا شکار ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ زراعت کے شعبے میں ہائی ٹیک آلات کے استعمال کیلئے اب بھی مشکلات کا سامنا ہے ۔ ایف اے او کے سربراہ ڈاکٹر عامر ارشاد نے کہا کہ زراعت معیشت کا ایک اہم جزو ہے کیونکہ ملک کی 63 فیصد آبادی دیہی علاقوں میں رہتی ہے اور ان کی اکثریت زراعت سے وابستہ ہے۔ تاہم صحت مند غذا کی بڑھتی ہوئی قیمت کی وجہ سے اوسطا ایک شخص کو صحت مند غذا خریدنے کے لئے ایک ڈالر کی ضرورت ہوتی ہے اور 74 فیصد آبادی اس کی متحمل نہیں ہوسکتی ۔ انہوں نے کہا کہ947 میں جی ڈی پی میں زراعت کا حصہ 60 فیصد تھا جو اب گھٹ کر 22 فیصد رہ گیا ہے۔انہوں نے 1960 اور 1970 کی دہائیوں میں حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے سبز زرعی ٹیکنالوجیز، مفت جدید بیجوں اور سستی کھاد کو فروغ دینے کی وجہ سے زرعی ترقی کی بھی وضاحت کی۔ گین کی کنٹری ڈائریکٹر فرح ناز نے کہا کہ عالمی واقعات کے پیش نظر ہمیں خوراک کے نظام کو مجموعی طور پر لینے اور زراعت کے علاوہ تمام مراحل پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ناقص غذائی تحفظ نامناسب غذائی نظام کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے تجویز دی کہ چھوٹے کاشتکاروں کو مزید مواقع فراہم کرنا اور غذائی قلت سے نمٹنے کے لئے دیسی فصلوں پر توجہ مرکوز کرنا ضروری ہے انہوں نے مزید کہا کہ نیشنل فوڈ سیکیورٹی پالیسی پر نظر ثانی کے ساتھ نجی شعبے کے کردار کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔اپنے اختتامی کلمات میں وزارت فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ کے زرعی ماہر ڈاکٹر سلیم محسن نے تجویز پیش کی کہ نظر ثانی شدہ نیشنل فوڈ سیکیورٹی پالیسی ماحولیاتی زونز کو مدنظر رکھتے ہوئے صوبوں کیلئے مخصوص ہونی چاہئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس کے بعد پہلے تین سال کےلئے خوراک کی مقدار پر توجہ دی جانی چاہئے تاکہ مٹی کی صحت کو بہتر بنانے کے لئے دستیابی اور پھر معیار کے ساتھ ساتھ مربوط غذائی اجزاءمیں اضافہ کیا جاسکے۔

متعلقہ آرٹیکلز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button